اولیاء اللہ کی پہچان |
ہم نوٹ : |
|
ہو، مولانا ہو، کوئی بھی ہو جب قبر میں اُتارا جاتا ہے تو بزبانِ حال وہ یہ شعر پڑھتا ہوا جاتا ہے ؎ شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم اور ؎ دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو بیوی بھی اپنے بچوں سے کہتی ہے کہ جلدی سے اپنے بابا کو قبر ستان پہنچاؤ، جس مکان کے بنانے میں کتنی نمازیں چھوڑیں، کتنا حرام کمایا،خدا کی کتنی نافرمانی کی اسی مکان سے اب بیوی بچے اس کو نکالتے ہیں، کہتے ہیں کہ جلدی نکالو۔ اسی لیے ایک بزرگ نے بڑی عمدہ بات کہی کہ اپنے بال بچوں کی فکر مت کرو، انہیں اللہ والا بنا دو، اگر بچے اللہ والے ہوں گے تو اللہ خود ان کی فکر کرے گا، اور اگر نالائق شرابی کبابی زانی ہوئے تو تمہارا مال ان کی بدمعاشی پر خرچ ہوگا اور تمہارا گناہ بڑھ جائے گا۔ راحت میں اﷲ کو یاد رکھنے کا انعام حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب انسان دنیا سے عاجز ہوجاتا ہے پھر اللہ ہی اللہ نظر آتا ہے مگر مبارک وہ بندے ہیں جو سُکھ میں خدا کو یاد رکھیں۔ سرورِ عالم سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں اُذْکُرُوا اللہَ فِی الرَّخَاءِ یَذْکُرْکُمْ فِی الشِّدَّۃِ 2؎ جب تندرستی اچھی ہو، خوب جوانی چڑھی ہوئی ہو، پیٹ میں بریانی کباب داخل ہورہے ہوں، اس وقت حالتِ آرام میں اللہ کو یاد رکھو تو پھر جب تم تکلیف میں ہوگےتو خداتمہیں یاد رکھے گا، لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جب تک طاقت رہتی ہے، جوانی چڑھی ہوئی ہے تو کسی کی ماں بہن بیٹی جو سامنے آئے اس کو دیکھتے ہیں، لیکن اگر ابھی کینسر ہوجائے،گردے بے کار ہوجائیں، ڈاکٹروں کا بورڈ یہ فیصلہ کردے کہ اب آپ نہیں بچیں _____________________________________________ 2؎مصنف ابن ابی شیبۃ:375/13، باب کلام الضحاک بن قیس،مؤسسۃ علوم القرآن