لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
|
مصداق ہوگے یعنی اپنے گناہوں سے استغفار کرو گے اور استغفار جب کامل ہوگا جب ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْہِ کے مصداق ہوکر آیندہ کے لیے عزم کروگے کہ اب کبھی گناہ نہیں کریں گے، چاہے یہ عزم ہزاروں دفعہ ٹوٹ جائے۔ آپ ٹوٹنے کے ذمہ دار نہیں ہیں، توڑنے کے ذمہ دار ہیں، توبہ قصداً نہ توڑیں، ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ گناہ کے تقاضے کے وقت پوری ہمت کرو کہ جان دے دیں گے مگر گناہ نہیں کریں گے، خود ہمت کرو، خدا سے ہمت کی دعا مانگو اور خاصانِ خدا سے ہمت کی دعا کی درخواست کرتے رہو، ان شاء اﷲ سلوک طے ہوجائے گا۔ اﷲ کے سواگناہوں کو کوئی معاف نہیں کرسکتا آگے فرماتے ہیں: وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللہُ اﷲ کے سوا کوئی تم کو معاف نہیں کرسکتا۔اگر سارا عالم امریکہ، روس، جاپان کیا بلکہ بالفرض ساری دنیا کے اولیاء اﷲ اور قطب مل کر کہہ دیں کہ تمہاری بد نگاہی ہم نے معاف کردی، تو ان کے کہنے سے یہ گناہ ہرگز معاف نہیں ہوگا جب تک اﷲ تعالیٰ معاف نہ فرما دیں۔ جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈالنے والے بھائیوں سے کہا کہ میں نے تمہیں معاف کردیا اور تمہارے لیے استغفار کردیا، تو علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اے بابا! آپ نبی تو ہیں مگر خدا نہیں ہیں، بھائی یوسف نے ہمیں معاف کردیا، بابا نے بھی معاف کردیا، لیکن بابا کے اوپر جو بڑے مالک ربّ العالمین ہیں، اگر انہوں نے ہمیں معاف نہیں کیاتو پھر معلوم نہیں ہمارا کیا ہوگا، لہٰذا خدا سے بھی معاف کرادیجیے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام بیسیوں برس تک روتے رہے کہ اے اﷲ! میرے بیٹوں کی مغفرت کے لیے وحی نازل فرمادیجیے۔ ایک دن جبرئیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ بذریعۂ وحی آپ کے بیٹوں کی توبہ قبول ہونے کی بشارت آگئی۔ پھر فَقَامَ الشَّیْخُ انہوں نے سب سے آگے حضرت یعقوب علیہ السلام کو کھڑا کیا، ان کے پیچھے حضرت یوسف علیہ السلام کو کھڑا کیا ثُمَّ قَامَ اِخْوَانَہٗ خَلْفَ یُوْسُفَ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے ان مجرم بھائیوں کو کھڑا کیا جنہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈالا تھا۔ اس