لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
|
راضی کرلیا ساری کائنات اس کے چین کو چھین نہیں سکتی، چاہے وہ کانٹوں میں لیٹا ہو مگر دل کی بہار کو کانٹے بھی نہیں چھین سکتے۔ میرا شعر ہے ؎ صدمہ و غم میں مرے دل کے تبسم کی مثال جیسے غنچہ گھرے خاروں میں چٹک لیتا ہے خاصانِ خدا گناہوں پر اصرار کیوں نہیں کرتے؟ اگر کلیاں کانٹوں میں کِھل سکتی ہیں،سکرا سکتی ہیں تو وہ دل جو اﷲ کو راضی کیے ہوئے ہے غموں میں بھی اﷲ اس کو تبسم کا مقام دے سکتا ہے۔ تو علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ حال ہے فَاِنَّ الْحَالَ قَدْ یَجِیْئُ فِیْ مَعْرَضِ التَّعْلِیْلِ اﷲ تعالیٰ نے یہاں علت بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ یہ گناہوں پر اس لیے قائم نہیں رہتے کہ میری ناراضگی اور میرے غضب سے بہت ڈرتے ہیں گو کبھی نفس سے مغلوب ہوجاتے ہیں، لیکن گناہ کے بعد ان پر ندامت طاری ہوجاتی ہے، خون کے آنسوؤں سے روتے ہیں، کیوں کہ ان کو یقین ہےکہ اگر میرا اﷲ ناراض ہوگیا تو میرا ٹھکانہ نہ دنیا میں ہے نہ آخرت میں ہے۔ پھر نہ بیوی مجھے چین دے سکتی ہے نہ بچے چین دے سکتے ہیں۔ اگر کینسر ہوجائے یا گردے میں پتھری پڑجائے، تو نہ بیوی یاد آتی ہے نہ بچے یاد آتے ہیں، بس اﷲ ہی یاد آتا ہے۔ جب تک ہم لوگ چین سے ہیں اﷲ کو کم یاد کرتے ہیں حالاں کہ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث نقل کی ہے: اُذْکُرُوا اللہَ فِی الرَّخَاءِ یَذْکُرْکُمْ فِی الشِّدَّۃِ 30؎سکھ اور عیش میں اﷲ تعالیٰ کو یاد کرو وہ دُکھ میں تمہیں یاد رکھے گا، تمہاری ہرآہ فوراً قبول ہوجائے گی۔ آہ پر مجھے اپنا ایک شعر یاد آگیا ؎ میرا پیام کہہ دیا جاکے مکاں سے لامکاں اے مری آہِ بے نوا تونے کمال کردیا _____________________________________________ 30؎مصنف ابن ابی شیبۃ:13/375، باب کلام الضحاک ابن قیس،مؤسسۃ علوم القراٰن