لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
مذکورہ آیت میں ذکر اﷲ کی تفسیر تو میں عرض کررہا تھا کہ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً سے مراد ہے کہ جس سے مخلوق کے حقوق میں غفلت ہوجائے۔اور جس نے اﷲ کے حقوق میں کوتاہی کی تو ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ آگے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ذَکَرُوااللہَ وہ لوگ اﷲ کا ذکر کرتے ہیں یعنی اﷲکویاد کرتے ہیں، تو یہاں ذکر سے کیا مراد ہے؟ جس سے مخلوق کے حقوق میں کوتاہی ہوئی، مثلاً کسی کی گھڑی چرالی، کسی کو گھونسا ماردیا، کسی کو گالی دے دی، تو اب صرف ذکر و تسبیح سے یہ گناہ معاف نہ ہوگا۔ حکیم الامت رحمۃاللہ علیہ تفسیر بیان القرآن میں اور علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیرروح المعانی میں فرماتے ہیں کہ جس نے مخلوق کے حقوق میں کوتاہی کی، مثلاً کسی کی گھڑی چرائی ہے تو اس کی گھڑی واپس کرے، جس کو ہاتھ یا زبان سے ایذا پہنچائی اس سے معافی مانگے، بیوی کو کچھ کہہ دیا تو اس سے معذرت کرے کہ معاف کردو مجھ سے خطا ہوگئی، اس کو خوش کرو، رس ملائی یا گلاب جامن اس کے منہ میں ڈالو، معافی مانگنے میں شرماؤ مت، اسے سینے سے لگا کر کہو مجھے معاف کردو، میں نے تمہارا دل دُکھایا ہے، اﷲ مجھ سے ناراض ہوگیا۔ اور اگر اﷲ کے حقوق میں کوتاہی ہوئی، مثلاً بدنظری کی تو بدنظری کی معافی کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ اس سے جاکر معافی مانگو کہ کل میں تمہیں بُری نظر سے دیکھ رہا تھا مجھے معاف کردو۔یہ حقوق اﷲ ہیں، اس کی صرف اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگو اور توبہ و استغفار کرو۔ ذکر اﷲ کی پانچ تفسیریں اس لیےیہاں ذَکَرُوااللہَ کی پانچ تفسیریں ہیں: پہلی تفسیر ہے ذَکَرُوْا عَظْمَتَہٗ وَ وَعِیْدَہٗ جب اﷲ کے خاص بندوں سے کوئی خطا ہوجاتی ہے تو اﷲ کی عظمت اور اس کی وعید کو یادکرتے ہیں۔ دوسری تفسیر ہے ذَکَرُوْا عَرْضَ عَلَیْہِ اﷲکےحضور اپنی پیشی کو یاد کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اﷲ پوچھے گا کہ تم جس کوٹھڑی میں چھپ کر گناہ کررہے تھے وَہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ 24؎وہاں میں بھی تھا۔ _____________________________________________ 24؎الحدید: 4