لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
|
بس تھوڑی سی وہمی تکلیف ہوئی کہ نہ جانے اس کی صورت کیسی ہوگی؟ گو ماضی احتمالی استعمال کررہا ہے (ماضی احتمالی میں ہوگا یا ہوگی لگانا ضروری ہے) کہ نہ جانے کیسا ہوگا یا نہ جانے کیسی ہوگی؟ اس لیے یہ وہمی تکلیف زیادہ سے زیادہ تین منٹ رہے گی، لیکن پھر جان چھوٹ جائے گی۔نظر بچا کر آگے بڑھ گئے اور تکلیف ختم۔ اسی لیے خواجہ صاحب فرماتے تھے ؎ ڈال کر ان پر نگاہِ شوق کو جان آفت میں نہ ڈالی جائے گی ہر گناہ میں دوزخ کی خاصیت ہے نفس دوزخ کی برانچ ہے، جو کچھ برانچ میں جمع کیا جاتا ہے وہ ہیڈ آفس میں جمع ہوجاتا ہے، جو مزاج ہیڈ آفس کا ہوتا ہے وہی برانچ کا ہوتا ہے، لہٰذا جو گناہ و نافرمانی نہیں چھوڑتا اس کے دل میں دوزخ کی خاصیت یعنی بے چینی اور پریشانی شروع ہوجاتی ہے اور دوزخ کا مزاج ہے لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی 10؎دوزخی کو نہ موت آئے گی نہ زندگی ملے گی۔ اسی طرح گنہگاروں کی زندگی ہوتی ہے کہ نہ ان کو موت آتی ہے نہ زندگی ملتی ہے۔ اِن ہی نادان عشاقِ مجازی کے لیے میں نے ایک شعر کہا ہے ؎ نہ نکلی نہ اندر رہی جانِ عاشق عجب کشمکش میں رہی جانِ عاشق عاشقِ مجاز اور عاشقِ خدا کے آنسوؤں میں فرق اچھا ایک بات اور بھی عرض کردوں کہ اگر نظر بازی سے دنیا یا آخرت کا کوئی فائدہ ملتا،تو کہہ دیتے کہ چلو بھائی نظر بازی کا کوئی فائدہ تو ہے، مگر اس سے تو دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں خدا کا عذاب ملتا ہے، نہ یہاں آرام نہ وہاں آرام۔اورحسن اتنی فانی چیز ہے کہ چند ہی دن میں چہرے کا جغرافیہ بدل جاتا ہے۔ کسی کی جوانی دیکھ کر شاعر غزل کہتا ہے اور ایک ایک _____________________________________________ 10؎الاعلیٰ:13