لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
|
خزانے میں کوئی موتی نہیں ہوتا تو وہ اس کو کسی دوسرے ملک سے منگواتا ہے اور اس موتی کی بڑی قدر کرتا ہے۔ اﷲ کے عالم ملکوت، عالم لاہوت اور عالم قدس میں فرشتوں کی تسبیح اور عبادتیں تو ہیں، لیکن گناہ گاروں کے آنسو نہیں ہیں، کیوں کہ فرشتوں سے خطا ہی نہیں ہوتی تو ندامت کے آنسو کہاں سے لائیں گے؟ لیکن جب اس عالمِ ناسوت میں گناہ گار بندے روتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان کے آنسو درآمد کرتے ہیں اوراپنے خزانے میں ان آنسوؤں کو موتی بنا کر رکھ لیتے ہیں۔ اسی کو خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ ستاروں کو یہ حسرت ہے کہ وہ ہوتے مرے آنسو تمنا کہکشاں کو ہے کہ میری آستیں ہوتی میں نے کعبہ کے اندر ایک شعر کہا تھا ؎ جو گرے ادھر زمیں پر مرے اشک کے ستارے تو چمک اٹھا فلک پر مری بندگی کا تارا قرآنِ پاک کا محض لغت سے ترجمہ کرنا گمراہی ہے تو میں عرض کررہا تھا کہ قرآنِ پاک کو سمجھنے کے لیے صحابہ کے اقوال کا علم ضروری ہے جیسے کلامِ پاک کی آیت ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ 12؎بتائیے! ڈکشنری کے حساب سے یُصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ کا کیا ترجمہ ہے؟ اَصْلَحَ یُصْلِحُ کے معنیٰ ہیں اصلاح کردینا،یعنی اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح کرد یں گے، لغت سے تو یہ ترجمہ ہوا۔لیکن آپ تمام تفسیریں دیکھ لیجیے، صحابہ و تابعین کے اقوال کی روشنی میں اس کا ترجمہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے بیان القرآن میں لکھا ہے کہ یہاں یُصْلِحْ کے معنیٰ اصلاح کےنہیں ہیں،بلکہ یَتَقَبَّلْ کے ہیں یُصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ یعنی _____________________________________________ 12؎الاحزاب:70 ۔71