لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
|
مخلوق کو ایذا پہنچانے والا صاحبِ نسبت نہیں ہوسکتا تو میں عرض کررہا تھا کہ وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً 20 ؎ کے معنیٰ ہیں جو مخلوق کے حقوق میں کوتاہی کرے، حالاں کہ فَاحِشَۃً قرآنِ پاک میں دوسری جگہ زِنا کے معنیٰ میں آیا ہے لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً 21؎ لیکن تمام مفسرین نے اور حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے بیان القرآن میں وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہاں فَاحِشَۃً کے معنیٰ ہیں کہ جن سے اﷲ کے بندوں پر ظلم ہوجاتا ہے،22؎ مثلاً معمولی سی خطا پر بِلاوجہ بیوی کو پیٹ ڈالا اور وہ بےچاری تکلیف کے مارے ہر کروٹ پر رو رہی ہے۔تو خوب سمجھ لو! جو شخص اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے وہ صاحبِ معرفت نہیں ہوسکتا۔ڈاکٹرعبدالحی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت حکیم الامت کی اہلیہ محترمہ رشتہ داروں سے ملنے گئیں، جاتے ہوئے حضرت سے کہہ گئیں کہ مرغی کا ڈربہ کھول دیجیے گا تاکہ مرغیاں دانہ پانی کھالیں۔ بتائیے! ڈیڑھ ہزار تصانیف کے مصنف کو ڈربہ یاد رہے گا؟ حضرت بھول گئے اور تفسیر بیان القرآن لکھنے بیٹھے، مگر دل میں مضامین کی آمد بند ہوگئی، سوچنے لگے کہ یا اﷲ! آج کیا بات ہے کہ مضمون کی آمد نہیں ہورہی، دل بے کیف ہے، یہ کیا ہوگیا۔ دیکھیے! اگر اﷲ تعالیٰ کی ذرا سی بھی ناراضگی ہوجائے، اﷲ سے غفلت ہوجائے،یا مخلوق کے حقوق میں کوتاہی ہوجائے اور مخلوق کے حقوق کو خدا نے اپنے حقوق میں شامل کیا ہے، مخلوق کے حقوق میں غفلت کو اﷲ نے اپنے حقوق میں غفلت شمار کیا ہے۔ جو بیٹے کو ستاتا ہے باپ اس کو اپنے اوپر ظلم سمجھتا ہے، لہٰذا ایک قیامت تو اجتماعی آئے گی جب اﷲ اﷲ کہنے والے نہیں ہوں گے تو زمین و آسمان سب گر پڑیں گے۔ اور ایک قیامت انفرادی آتی ہے، جو اﷲ کو بھول جاتا ہے اس کے دل کی دنیا اجڑ جاتی ہے، اس کے دل کے زمین و آسمان چاند ستارے سب گر پڑتے ہیں، اس کا شامیانہ اجڑ جاتا ہے، یہ انفرادی قیامت ہے، خدا سے غفلت انفرادی قیامت ہے۔ تو حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اﷲ سے دعا کی کہ یا اﷲ! جلدی _____________________________________________ 20؎اٰل عمرٰن :135 21؎بنی اسرآیل :32 22؎ملحقات الترجمہ لبیان القرآن بحوالہ بیضاوی:58/1 ، اٰل عمرٰن(135) ،ایج ایم سعید