Deobandi Books

لا زوال سلطنت

ہم نوٹ :

33 - 42
کے عادی ہوتے ہیں، جب ان کا بلب فیوز ہوتا ہے تو فوراً پاور ہاؤس کو فون کرتے ہیں۔ اسی طرح اﷲ والے گناہوں کی ظلمت کے عادی نہیں ہوتے، لہٰذا ان سے اگر کبھی خطا ہوجاتی ہے تو    اﷲ تعالیٰ سے رابطہ کرکے توبہ و استغفار کرکے اپنا نور بحال کرالیتے ہیں۔کسی نے حکیم الامت سے عرض کیا کہ حضرت غافل شخص سے بھی گناہ ہوتا ہے اور اﷲ اﷲ کرنے والوں سے بھی کبھی غلطی ہوجاتی ہے، تو پھر ذاکر اور غافل میں کیا فرق ہوا؟حضرت نے فرمایا کہ غافل جو ذکر اﷲ نہیں کرتا اس کے دل میں پہلے ہی سے اندھیرا ہوتا ہے، یہ جب بدنگاہی کرے گا تو اندھیروں پر اندھیرا چڑھ جائے گا، اس کو توبہ و استغفار کے ذریعےاﷲ تعالیٰ سے رابطہ کرکے گویا پاور ہاؤس فون کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوگی اور جو ذکر کے چراغ جلائے ہوئے ہیں، وہ روزانہ توبہ و استغفار کرکے اپنا نور بحال کرالیتے ہیں۔ جو اﷲ کا نام لیتا ہے، اس سے جب بدنگاہی ہوگی اور اس کے دل کے نور کا بلب فیوز ہوگا، دل میں اندھیرا آئے گا،تو وہ اﷲ کے پاور ہاؤس میں توبہ و استغفار کے آنسوؤں سے وائر لیس کرے گا کہ اے خدا! دل میں اندھیرا آگیا ہے، جلدی سے دوبارہ روشنی بھیج دیجیے، ہمارے گناہوں کے اندھیرے اپنی رحمت سے دور کردیجیے۔ ذاکر کو گناہ سے پریشانی ہوجاتی ہے اور غافل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ذاکر اور غافل گناہ گار میں یہی فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح گناہ کی لذت میں بھی فرق ہوجاتا ہے۔ جو غفلت سے گناہ کرتا ہے وہ گناہ کا پورا مزہ لیتا ہے یعنی انتہائی غفلت سے گناہ کرتا ہے، اسی لیے اس کو گناہ چھوڑنا مشکل ہوتا ہےاور جب ذاکر سے گناہ ہوتا ہے تو دھڑکتے ہوئے دل سے ہوتا ہے، کیوں کہ اس کو اﷲ کا استحضار ہوتا ہے، ذکر کے نور کی برکت سے اس کا قلب اندھیرے کا عادی نہیں ہوتا، گناہ کرتے وقت اس کا دل گھبرایا گھبرایا سا رہتا ہے، لہٰذا گناہ کی لذت بھی ناقص ہوجاتی ہے اور ناقص مزے کو چھوڑنا آسان ہوتا ہے، توبہ کی توفیق جلد نصیب ہوجاتی ہے، جلد قابلِ واپسی ہوتا ہے اور اگر غافل بہت دن تک غفلت سے گناہ کرتا رہے، تو ناقابلِ واپسی بھی ہوسکتا ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے ذَکَرُوا اللہَ کے بعد فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ  فرمایا کہ میرے ذکر کے بعد اگر تم کو استغفار کی توفیق ہوجائے توسمجھو کہ تمہارا ذکر قبول ہے۔ اگر تم ذکر خوب کرتے ہو، لیکن گناہ نہیں چھوڑتے، تو تمہارا ذکر کامل نہیں ہے۔ ذکرکامل اور مقبول کب ہوگا؟ ذَکَرُوااللہَ کا مقام تمہیں کب نصیب ہوگا؟ جب تم فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ کے
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 قرآنِ پاک کا ترجمہ کرنا آسان کام نہیں ہے 7 1
4 قرآنِ پاک میں شانِ رحمت کی تعلیم 8 1
5 بچوں کو سزا دینے کے طریقے 9 1
6 بغیر سمجھے قرآنِ پاک پڑھنا بھی ثواب سے خالی نہیں 9 1
7 توبہ کرنا کسی حال میں نہیں چھوڑنا چاہیے 12 1
8 اہل اﷲ کا ذکر فرشتوں کے ذکر سے افضل ہے 15 1
9 قرآنِ پاک کا محض لغت سے ترجمہ کرنا گمراہی ہے 20 1
10 حضرت آدم علیہ السلام کے نسیان کو عصیان سے کیوں تعبیر کیا گیا؟ 21 1
11 حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں ایک تفسیری غلط فہمی کا ازالہ 22 1
12 اہل علم کا علم کب مؤثر ہوگا؟ 23 1
13 حقیقی محبت صرف اﷲ کے لیے خاص ہے 25 1
14 بدنظری سنکھیا سے بڑازہر ہے 26 1
15 ہر صاحبِ نسبت کا عالم الگ ہوتا ہے 28 1
16 مخلوق کو ایذا پہنچانے والا صاحبِ نسبت نہیں ہوسکتا 29 1
17 مذکورہ آیت میں ذکر اﷲ کی تفسیر 31 1
18 ذکر اﷲ کی پانچ تفسیریں 31 1
19 ذاکر اور غافل گناہ گار میں کیا فرق ہے؟ 32 1
20 اﷲ کے سواگناہوں کو کوئی معاف نہیں کرسکتا 34 1
21 گناہوں پر اصرار کی شرعی تعریف 35 1
23 اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی کے اثرات 36 1
24 خاصانِ خدا گناہوں پر اصرار کیوں نہیں کرتے؟ 37 1
25 گناہوں سے بچنے کا نسخہ 38 1
26 اﷲ کا ذکر روح کی غذا ہے 38 1
27 قرآنِ پاک سے فرقۂمعتزلہ کے ایک عقیدے کا رد 10 1
28 اہل اﷲ سے تعلق کا ایک عظیم الشان ثمرہ 10 1
29 اﷲ کے نام کی لذت بے مثل ہے 16 1
30 تعزیت تین دن تک کیوں مسنون ہے؟ 17 1
31 ہر گناہ میں دوزخ کی خاصیت ہے 18 1
32 عاشقِ مجاز اور عاشقِ خدا کے آنسوؤں میں فرق 18 1
33 اﷲ والے سارے عالم سے بے نیاز ہوتے ہیں 27 1
34 صحبتِ اہل اﷲ کے فوائد کی عجیب مثالیں 14 1
Flag Counter