لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
|
وَ اللہُ یَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَکُمۡ وَمَثۡوٰىکُمۡ 25 ؎جب شہر میں بس اسٹاپوں پر سے گزرتے ہوئے تم لڑکیوں کے اسکولوں کے سامنے کھڑے ہوکر جو بدنگاہی کرتے تھے، تو تمہارا تقلب فی البلاد، شہروں میں چلنا پھرنا بھی خدا دیکھ رہا تھا اور مثواکم جب تم اپنی قیام گاہوں میں چھپ کر گناہ کررہے تھے تو بھی خدا تمہیں دیکھ رہا تھا۔ تیسری تفسیر ہے ذَکَرُوْا سُوَالَہٗ بِذَنْبِھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ان پر اﷲ تعالیٰ کے سوالات کا خوف طاری ہوجاتا ہے کہ قیامت کے دن اﷲ پوچھیں گے کہ دنیا میں کیا کیا اعمال کیے؟چوتھی تفسیر ہے ذَکَرُوْا جَلَا لَہٗ فَہَابُوْا اﷲ تعالیٰ کے جلال و عظمت کو یاد کرتے ہیں اور خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور پانچویں تفسیر ہے ذَکَرُوْا جَمَالَہٗ فَاسْتَحْیُوْا 26؎ اﷲ تعالیٰ کے جمال کو یاد کرتے ہیں اور شرمندہ ہوجاتے ہیں کہ جو حوروں کا خالق ہے وہ خود کیسا ہوگا؟ ؎ چہ باشد آں نگارے کہ بند د ایں نگاراہا جو حسینوں کو حسن کی بھیک دیتا ہے وہ خود کتنا حسین ہوگا؟ اس کے حسن کا کیا عالَم ہوگا کہ جس کو دیکھنے کے بعد حوریں بھی یاد نہ رہیں گی، بلکہ حوریں ہم پر فدا ہونے لگیں گی۔ جنت میں اﷲ کا دیدار کرکے اور اﷲ کے جلوؤں کو اپنے چہروں میں جذب کرکے، جب ہم حوروں کے پاس جائیں گے تو وہ ہم پر فدا ہوں گی کہ آج تم کہاں سے اتنا حسن لے کر آئے ہو؟ جواب یہی ہوگا کہ جس نے تم کو حسن کی بھیک دی ہے ہم اسی بھیک دینے والے کے پاس سے آرہے ہیں۔ ذاکر اور غافل گناہ گار میں کیا فرق ہے؟ یہاں ذَکَرُوااللہَ کے بعد فَاسۡتَغۡفَرُوۡا کا ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ ذکر کی برکت سےحضوری نصیب ہوتی ہے اور حضوری کے بعد فوراً توبہ کی توفیق ہوتی ہے ،اسی لیے حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جو لوگ اﷲ والوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اﷲ کا ذکر کرتے ہیں اگر ان سے کبھی غلطی ہو جائے تو ان کو جلد توبہ کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے، کیوں کہ جو روشنی میں رہنے _____________________________________________ 25؎محمد:19 26؎روح المعانی:60/4،اٰل عمرٰن(135)،داراحیاء التراث، بیروت