لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
لازوال سلطنت نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ قرآنِ پاک کا ترجمہ کرنا آسان کام نہیں ہے ایک مرتبہ میرے مرشدِ اوّل شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ نے آیت لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ 1 ؎ پڑھ کر اس کا ترجمہ یہ کیا کہ اےاہل بیت! اے نبی کے گھر والو! تاکہ اﷲ نجاستوں اور گندگیوں کو تم سے دور رکھے۔ اس آیت کا ترجمہ بعض لوگوں نے یہ کردیا کہ اے اہل بیت! تاکہ اﷲ نجاستوں کو تم سے دور کردے۔ لیکن حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عن جب صلہ آتا ہے تو مجاوزت کے معنیٰ آتے ہیں، لہٰذا عربی بلاغت کے اعتبار سے اس کا صحیح ترجمہ یہی ہوگا کہ اے اہلِ بیت! تاکہ اﷲ گندگیوں کو تم سے دور رکھے یعنی اﷲ چاہتا ہے کہ نجاست تمہیں لگے ہی نہیں، جبکہ دور کردے کا ترجمہ عربی بلاغت کے اعتبار سے صحیح نہیں جس کے معنیٰ نعوذ باﷲ!یہ ہوں گے کہ نجاست لگ گئی تھی پھر الگ کیا، لہٰذا دور رکھے بہترین ترجمہ ہے۔ اﷲ جزائے خیر دے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کہ کیا عمدہ ترجمہ فرمایا، لہٰذا قرآنِ پاک کا ترجمہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ جیسے بعض لوگ لغت کے اعتبار سے ترجمہ کرتے ہیں، مثلاً اِنۡ ہِیَ اِلَّا فِتۡنَتُکَ 2؎ کا ترجمہ یہ ہے کہ یا اﷲ!یہ آپ کی طرف سے امتحان ہے۔ یہاں فتنہ بمعنیٰ امتحان ہے، اردو میں جو فتنے کے معنیٰ مستعمل ہیں وہ مراد نہیں۔ چناں چہ جس معنیٰ پر قرآن نازل ہوا، جس معنیٰ کو سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مقرر فرمادیا بس وہی معنیٰ مقرر ہوں گے، لہٰذا جو لوگ یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ اے اہلِ بیت! تاکہ اﷲ تم کو نجاستوں سے پاک کردے، وہ بالکل غلط ترجمہ کرتے ہیں۔ _____________________________________________ 1؎الاحزاب: 33 2؎الاعراف:155