لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
|
یَتَقَبَّلْ حَسَنَاتِکُمْ 13؎ تمہاری نیکیاں اﷲ تعالیٰ قبول کرلیں گے۔ اب بتائیے! اگر کوئی اس آیت کو لغت سے حل کرے گا تو وہ کہاں جائے گا؟ قرآن کےحروف سےعلمِ الٰہی میں جو مراد ہے وہاں سے ہٹ جائے گا، اگر مفسرین، صحابہ اور تابعین کے اقوال سامنے نہ ہوں گے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے نسیان کو عصیان سے کیوں تعبیر کیا گیا؟ اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں عَصٰۤی اٰدَمُ آدم سے عصیان ہوگیا۔ تو یہاں عصیان کے کیا معنیٰ ہیں؟ اس عصیان کو ہم لوگ اپنی طرح کا عصیان نہ سمجھ لیں کہ ہم سے بھی عصیان ہوا اور نبی سے بھی عصیان ہوا، لہٰذا کوئی فرق نہیں۔ ارے دوستو! اگر ایسا سمجھا تو کفر ہوجائے گا، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ تمہارے بابا آدم سے جو عصیان ہوا تھا، وہ عصیان نہیں تھا نسیان تھا فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا 14؎ وہ بھول گئے تھے۔ نکرہ تحت النفی واقع ہے جو فائدہ عموم کا دیتا ہے یعنی ان کے دل میں میری نافرمانی کے ارادے کا ایک اعشاریہ ایک ذرّہ تک نہ تھا، ان سے ذہول ہوگیا تھا، اﷲ تعالیٰ نے نسیان کو عصیان سے تعبیر فرمایا۔ اب ایسا اہل قلم گستاخ ہوگا جو نسیان کو عصیان کہنے کی جرأ ت کرے۔اسی لیے باادب اکابر مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے چوک ہوگئی۔ وہ عصیان کا ترجمہ نافرمانی سے نہیں کرتے، کیوں کہ خود اﷲ تعالیٰ اس کی تفسیر نسیان سے فرمارہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نسیان کو عصیان سے کیوں تعبیر کیا؟ جواب یہ ہے کہ ان کی شانِ قرب کی وجہ سے، کیوں کہ جو زیادہ مقرب ہوتا ہے اس کی ذرا سی چوک بھی بڑی غلطی قرار دی جاتی ہے۔ پس ان کی عظمتِ شان بیان کرنے کے لیےیہاں نسیان کو عصیان سے تعبیر فرمادیا، لیکن نالائقوں کی نادانیوں کو دور کرنے کے لیے آگے عظمتِ شانِ نبوت بیان فرمادی کہ وہ عصیان نہیں نسیان تھا۔ _____________________________________________ 13؎مرقاۃالمفاتیح:310/10،باب اعلان النکاح،المکتبۃ الامدادیۃ/ملحقات الترجمہ لبیان القرآن:68/2، الاحزاب (17)، ایج ایم سعید 14؎طٰہٰ:115