لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
|
کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نے سرکاری مضمون سے دعا کرائی، فرمایا کہ آپ سب یہ دعا مانگیے جس کا مضمون میں آسمان سے لے کر آیا ہوں یَا رَجَاءَ الْمُوْمِنِیْنَ لَا تَقْطَعْ رَجَائَنَا اے ایمان والوں کی آخری امید! اپنی رحمت سے ہماری امیدوں کو نہ کاٹیے کہ آپ کے بعد ہماری کوئی آخری عدالت اور سپریم کورٹ نہیں ہے، یہاں کے بعد مجرم پھر کہیں نہیں جاسکتا۔ یَاغِیَاثَ الْمُوْمِنِیْنَ اَغِثْنَا اے ایمان والوں کی فریاد کو سننے والے! ہماری فریاد سن لیجیے۔ یَا مُعِیْنَ الْمُوْمِنِیْنَ اَعِنَّا اے ایمان والوں کے مددگار! ہماری مدد فرمادیجیے۔ یَامُحِبَّ التَّوَّابِیْنَ تُبْ عَلَیْنَا 27 ؎اے توبہ کرنے والوں سے محبت فرمانے والے! ہم پر توجہ فرمادیجیے، ہماری توبہ کو قبول فرمالیجیے۔ بس اُسی وقت اُن کا کام بن گیا اور توبہ قبول ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ ذکر مقبول اُسی کا ہے جسے توبہ و استغفار کی توفیق ہوجائے اور جو گناہوں کو چھوڑ دے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اﷲ کے سوا ہم کو کوئی معاف نہیں کرسکتا جو قرآنِ پاک سے ثابت ہے یعنی وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللہُ ۔ گناہوں پر اصرار کی شرعی تعریف اﷲ تعالیٰ آگے فرما رہے ہیں: وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ 28؎اور وہ لوگ اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے۔ اور اصرار کا ترجمہ وہ نہیں ہے جو عام لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر دوبارہ خطا ہوگئی تو سمجھتے ہیں کہ بس میں مردود ہوگیا۔ دوستو! خطاؤں کا بار بار ہونا مردودیت کی علامت نہیں ہے۔ صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبانِ نبوت کے الفاظ نقل کررہے ہیں،گویا اس آیت کی تفسیر فرمارہے ہیں مَااَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَوَ لَوْ عَادَ فِی الْیَوْمِ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً 29؎ جو استغفار و توبہ کرلیتا ہے اگرچہ اس سے پھرستّر دفعہ گناہ ہوجائے، تو وہ اصرار کرنے والوں میں شامل نہیں ہوتا،بشرطیکہ توبہ _____________________________________________ 27؎روح المعانی:13/56،یوسف(99)،داراحیاءالتراث ،بیروت 28؎اٰل عمرٰن:135 29؎مشکوٰۃ المصابیح:204، باب الاستغفار والتوبۃ ، المکتبۃ القدیمیۃ