لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
|
اہل علم کا علم کب مؤثر ہوگا؟ جدہ کا واقعہ ہے، میرے شیخ شاہ ابرار الحق صاحب بھی موجود تھے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک پیٹرول پمپ پر تیل کا ایک ٹینکر جس پر سینکڑوں گیلن پیٹرول لدا ہوا تھا، پیٹرول پمپ سے چند گیلن پیٹرول مانگ رہا تھا۔ میرے شیخ نے مجھ سے فرمایا کہ حکیم اختر دیکھو! اس کی پیٹھ پر سینکڑوں گیلن پیٹرول لدا ہوا ہے لیکن پیٹرول پمپ سے چند گیلن پیٹرول مانگ رہا ہے، کیوں کہ اس کے انجن میں پیٹرول نہیں ہے، جب انجن میں پیٹرول نہیں ہے، تو اوپر لدا ہوا سینکڑوں گیلن پیٹرول نہ اس کے کام آسکتا ہے نہ دوسروں کے کام آسکتا ہے، کیوں کہ گاڑی چل ہی نہیں سکتی،لہٰذا جن علماء نے اپنے علم کو پیٹھ پر لادا اور اﷲ والوں کی جوتیاں اٹھا کر قلب کے اندر خشیت اور اﷲ کی محبت کا پیٹرول نہیں ڈالا، ان کا علم نہ ان کے لیے مفید بن سکا نہ دوسروں کے لیے مفید بن سکا۔ اس لیے دوستو! جہاں آپ نے دس سال درسِ نظامی کا اہتمام کیا، چھ ماہ یا چالیس دن کسی اﷲ والے کے پاس لگا لو۔ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے شاگرد عبد اﷲ شجاع آبادی سے فرمایا کہ تم نے بخاری شریف پڑھ لی اور آج دستار بندی بھی ہوگئی۔ اب جاؤ! اور چند دن کسی اﷲ والے کی جوتیاں اٹھا لو۔ پھر قسم کھا کر فرمایا کہ خدا کی قسم! اﷲ والوں کی جوتیوں کی خاک کے ذرّات بادشاہوں کے تاجوں کے موتیوں سے افضل ہیں کیوں کہ ان کے سینے میں درد بھرا دل ہے، ان سے تمہیں اﷲ کا درد ملے گا، پھر تمہارا منبر منبر بنے گا، تمہارا قَالَ اللہُ قَالَ اللہُ ہوگا اور قَالَ الرَّسُوْلُ قَالَ الرَّسُوْلُ ہوگا، تمہارے الفاظ میں رس آجائے گا۔ نہیں تو پھر گولا ہوگا رس نہیں ہوگا۔ اگر اہل اﷲ سے محبت کا رس نہیں لیا اور خالی علم کا گولا لے کر منبر پر بیٹھ گئے، تو امت تمہاری باتوں میں رس نہیں پائے گی اور کہے گی کہ ملّاؤں کے پاس جی گھبراتا ہے، ان کے پاس مزہ نہیں آتا، لیکن کسی درد بھرے دل والے اﷲ والے مولوی کی صحبت میں بیٹھ کر دیکھو کہ کیا مزہ ملتا ہے۔ اس پر میرا ایک شعر ہے اور شعر سے اپنا تعلق اس لیے ظاہر کردیتا ہوں کہ جن کو مجھ سے محبت ہے ان کو میرے شعر میں زیادہ مزہ آئے گا ؎ دل چاہتا ہے ایسی جگہ میں رہوں جہاں جیتا ہو کوئی درد بھرا دل لیے ہوئے