لا زوال سلطنت |
ہم نوٹ : |
|
قرآنِ پاک میں شانِ رحمت کی تعلیم اﷲ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتے ہیں اَلرَّحۡمٰنُ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ 3؎ قرآن رحمٰن نے سکھایا ہے۔ جب قرآن اﷲ تعالیٰ نے سکھایا ہے، تو اسے صرف لغت سے مت حل کرو۔قرآن کے درست معنیٰ وہی ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو سکھائے۔ یہاں ایک بات یاد آئی کہ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، لیکن اﷲ تعالیٰ نے اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ میں صفتِ رحمٰن ہی کو کیوں نازل فرمایا؟ اس لیے کہ قیامت تک کے معلمینِ قرآن کو یعنی قرآن پڑھانے والوں کو یہ سبق مل جائے کہ بچوں کو شانِ رحمت سے پڑھاؤ، قصائی کی طرح ان کی پٹائی مت کرو، ورنہ وہ مدرسے سے نفرت کرکے انگریزی اسکولوں میں بھاگ جائیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ۱۹۶۴ء میں مسجد شہداء لاہور میں صوفی غلام سرور صاحب کے یہاں ایک صاحب حضرت پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس روتے ہوئے آئے کہ حضرت میرا ایک ہی بیٹا تھا، قاری صاحب کے پاس حافظ ہونے کے لیے بھیجا تھا، ایک دن انہوں نے سبق یاد نہ ہونے پر بچے کی گردن جھکائی اور پیٹھ پر ایک گھونسہ مارا، گھونسہ بائیں طرف عینِ دل کے مقابل لگا اور بچے کا ہارٹ فیل ہوگیا،یہ کہہ کر وہ شخص زار و قطار رونے لگا۔ حضرت نے فرمایا کہ ایسے قصائیوں کو خدا ہدایت دے۔ علامہ شامی ابنِ عابدین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ نابالغ بچےکو ڈنڈے سے مارنا بھی جائز نہیں ہے، شدید ضرورت پر استاد ہلکے ہاتھ سے مارے، وہ بھی تین تھپڑ سے زیادہ نہیں۔ اِیَّاکَ اَنْ تَضْرِبَ فَوْقَ الثَّلَاثِ فَاِنَّکَ اِذَا ضَرَبْتَ فَوْقَ الثَّلَاثِ اِقْتَصَّ اللہُ مِنْکَ 4؎ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ جو تین مرتبہ سے زیادہ مارے گا قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ایسے استاد سے قصاص لے گا۔ اور غصےکی حالت میں ہرگز سزا نہ دے، جب غصہ ٹھنڈا ہوجائے پھر سوچے کہ کتنی سزا مناسب ہوگی۔ غرض تین تھپڑ سے زیادہ مارنا یا بہت زور سے مارنا جائز نہیں، وہ بھی سخت ضرورت پر، ورنہ عام حالات میں بہت رحمت اور محبت سے بچوں کو پڑھاؤ۔ _____________________________________________ 3؎الرحمٰن:1۔2 4؎ردالمحتار علی الدر المختار:352/1،دارالفکر،بیروت