آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
دی، تو ان کے دل کا چاند نسبت مع اﷲ کے نور سے سو فیصد روشن ہوگیا، وہ سراپانور بن گئے اور ان کی صحبتوں میں آپ دیکھیے کیا اثرات ہیں۔ تو درس وتدریس و وعظ سب کاموں کے ساتھ افنائے نفس کی ضرورت ہے۔ اس بات کو شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ بھئی بغیر شیخ کے نہ گناہ چھوٹتے ہیں اور نہ تقویٰ حاصل ہوتا ہے، چاہے کتنے ہی وظیفے پڑھ لو لیکن گناہ نہیں چھوٹتے۔ تقویٰ کا راستہ اﷲ تعالیٰ نے تجویز فرمایاہے کہ اے ایمان والو! تقویٰ کی حیات تم کو ملے گی اہل اﷲ کی صحبت سے کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ 13 ؎سے اور صادقین کے معنیٰ متقین کے ہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ صادق کےمعنیٰ متقی کہاں ہیں؟ اس کی کیا دلیل ہے؟ تو دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے خود ہی اس کی تفسیر فرمادی: اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ 14؎جو لوگ صادق ہیں یہی متقی ہیں۔ دونوں میں کلّی متساویین کی نسبت ہے، ہر صادق متقی اور ہر متقی صادق ہوتا ہے۔ پس متقی کے ساتھ بیٹھنے سے اس کے قلب کے تقویٰ کا اثر اس پر پڑتا ہے، ورنہ دیکھا گیا ہے کہ ویسے تو عبادت میں بہت محنت کی، اسّی برس تک وعظ کہا، اسّی برس تک بخاری پڑھائی، اسّی برس تک اذان دی، مگر جب گناہ کا معاملہ آیا تو کہیں حُبِّ جاہ میں مبتلا ہوگیا، کہیں بدنگاہی میں مبتلا ہوگیا، لیکن وہ لوگ جو اہل اﷲ کی صحبت اُٹھائے ہوئے ہیں، اُن کو آپ مقامِ تقویٰ پر فائز پائیں گے۔ بہرحال جاہی اور باہی دونوں روحانی بیماریوں سے بچنے کے لیے کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ کے سوا چارہ نہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ کی تفسیر فرمائی ہے کہ متقین کے ساتھ کتنا رہو؟ فرماتے ہیں خَالِطُوْ ھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ 15؎ اﷲ والے او رمتقی بندوں کے ساتھ اتنا رہو حَتّٰی تَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ کہ تم ان جیسے ہوجاؤ یعنی تقویٰ کی ویسی ہی کیفیت پیدا ہوجائے، مگر اس کے لیے وقت چاہیے۔ _____________________________________________ 13؎التوبۃ:119 14؎البقرۃ:177 15؎روح المعانی:56/11 ، التوبۃ (119)،داراحیاء التراث، بیروت