آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
مرید کو ڈانٹ سکتا ہے۔ بیٹا کتنا ہی بڑا عالم ہوجائے باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کو تنبیہ کرسکتا ہے۔ اور حضرت گنگوہی نے سخت لہجے میں فرمایا کہ میرے پاس ایک سیکنڈ بھی مت ٹھہرو، فوراً واپس جاؤ، یہ بھی نہیں فرمایا کہ بیس میل پیدل چل کر آئے ہو، کچھ کھا پی لو، بلکہ فرمایا کہ فوراً واپس جاؤ۔ یہ ہیں اﷲ والے جو اپنے مریدین کو اس طرح سے سنوارتے ہیں۔یہ سنوارنا ہے، یہ بنانا ہے۔ مریدایسے ہی بنتا ہے، جب ڈانٹ کھاتا ہے تب ڈینٹ نکلتا، ہے جیسے موٹر میں کبھی ڈینٹ آجاتا ہے تو گیراج والے اس کا ڈینٹ نکالتے ہیں، اسی طرح شیخ بھی نفس کا ڈینٹ نکالتا ہے،کبھی غفلت کا ڈینٹ ہے،کبھی بڑائی کا ڈینٹ ہے،کبھی اﷲ کی محبت کی کمی کا ڈینٹ ہے، کبھی دنیا کی محبت کا بیوی کی محبت کا، کاروبار کی محبت کا ڈینٹ ہےکہ یہ محبت اتنی غالب آگئی کہ نہ جماعت کی نماز کی فکر ہے نہ آخرت کی فکر ہے،سمجھتا ہے کہ ہمیشہ یہیں رہنا ہے۔ مسافر جب پردیس کو وطن سمجھنے لگے تو اس کے دماغ کا آپریشن ضروری ہے، ورنہ وطن خراب کردے گا جہاں ہمیشہ رہنا ہے اور پردیس میں ہر وقت رنگ رلیوں میں لگا رہے گا، لہٰذا شیخ الہند فوراً قصبہ گنگوہ کی طرف واپس چل پڑے، راستے میں ان کا ایک شاگرد ملا۔ شیخ الہند بہت بڑے عالم تھے، طلباء کوبخاری شریف پڑھاتے تھے، مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کے شاگرد ہیں تو ان کے شاگرد نے کہا: حضرت ہاتھ جوڑتا ہوں تھوڑا سا کچھ کھا لیں، تھوڑا سا شربت پی لیں،فرمایا کہ میرے شیخ نے فرمایا ہے فوراً قصبہ خالی کرکے واپس جاؤ، اگر میں تمہارے ہاں پانی،یا شربت پیوں گا یا کچھ کھاؤں گا تو فوراً کا حق ادا نہ ہوگا۔ بتائیے! کیا ان کے شیخ اس وقت دیکھ رہے تھے؟ مولانا گنگوہی ان کو دیکھ رہے تھے؟ یہ ہیں اﷲ والے۔ فرمایا کہ اے میرے شاگرد! میں ایک منٹ بھی تمہارے یہاں نہیں بیٹھوں گا، میرے شیخ نے فوراً کا لفظ کہا ہے۔ کیا میرا شیخ بے رحم ہے؟ وہ پانی نہیں پلا سکتا تھا؟ وہ ہمیں روٹی نہیں دے سکتا تھا؟ انہوں نے جو کچھ کہا ہماری اصلاح کے لیے کہا۔ بعض دفعہ شیخ کی ایک ڈانٹ میں وہ اثر ہوتا ہے کہ سو برس کے تہجد سے اُس مقام پر پہنچنا مشکل ہوتا ہے جہاں شیخ کی ایک ڈانٹ پہنچا دیتی ہے۔ پس شیخ الہند فوراً واپس آگئے۔یہ تھی شیخ و مرشد کی عظمت۔آج تو مرید کو ذرا سا ڈانٹ دو تو اس کا منہ ٹیڑھا ہوجاتا ہے۔ مرید قرضہ مانگے اور شیخ نہ دے، تو کہتا ہے کہ ایسے بخیل پیر کو چھوڑ دو۔ چاہتے ہیں کہ بس پیر ان کو