صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
مقدمۃ الکتاب از عارف باللہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ امسال۱۹؍شعبان المعظم ۱۴۱۹ھ مطابق ۹؍ دسمبر ۱۹۹۸ء بروز بدھ پونے دس بجے صبح والدہ مولانا مظہرسلمہٗ کا انتقال ہوگیا۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رَاجِعُوۡنَ اور پچاس سالہ رفاقت کا باب بند ہوگیا جس سے قلب پر بہت اثر ہے لیکن الحمدللہ تعالیٰ! میرے بزرگوں کے فیض سے دل بالکل اللہ تعالیٰ کی مرضی پر راضی ہے جس پر احقر کے چند اشعار ہیں ؎ حسرت سے میری آنکھیں آنسو بہارہی ہیں دل ہے کہ ان کی خاطر تسلیمِ سر کیے ہے کیف تسلیم و رضا سے ہے بہار بے خزاں صدمہ و غم میں بھی اخترؔ روح رنجیدہ نہیں صدمہ و غم میں مرے دل کےتبسم کی مثال جیسے غنچہ گھرے خاروں میں چٹک لیتا ہے پچاس سال تک ان کے جو حالاتِ رفیعہ دیکھے اس سے احقر کا گمان اقرب الی الیقین ہے کہ وہ ایک صاحبِ نسبت،بہت بڑے درجے کی ولیہ تھیں۔دین میں وہ ہمیشہ میری مددگاررہیں، برسوں سے غیرملکی اسفار ہورہے ہیں کبھی حائل نہ ہوئیں۔ ان کی وجہ سے ہی مجھے اپنے شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہنا ممکن ہوا کیوں کہ شیخ کے ساتھ میرے تعلق کو دیکھ کرنکاح کےبعدہی انہوں نےمجھےخوشی سےاجازت دی کہ آپ جب تک چاہیں شیخ کی خدمت میں رہیں،ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا اور یہ بھی کہا کہ آپ جس حال میں رہیں گے ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گے،آپ کھائیں گے تو ہم بھی کھائیں گے،آپ فاقہ کریں گے تو ہم بھی فاقہ کریں گے،آپ جنگل میں رہیں گے تو ہم بھی جنگل میں رہیں گے۔آپ جو کھلائیں گے