صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
آرام نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسی مدد فرمائی کہ ضعف کے باوجود سب نہایت آسانی سے ہوگیا۔ ۳؍شعبان مطابق ۲۳؍ نومبر کی شام کو گئے تھے اور ۵؍ شعبان یعنی۲۵؍ نومبر کی صبح کو کراچی پہنچ گئے،صرف ایک دن کے اندرعمرہ کی ادائیگی اورمدینہ پاک کی حاضری سب اللہ تعالیٰ نے نصیب فرمادی۔ علالت کے سولہویں دن ۱۹؍شعبان ۱۴۱۹ھ بدھ کے دن ان کا انتقال ہوا، تقریباً پچاس سال کا ساتھ رہا، میرے دل سے پوچھو کہ اس غم کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا جو دل کو پہنچا، پچاس سال کا ساتھ کوئی معمولی بات نہیں اور صرف ساتھ نہیں بلکہ سراپا وفاداری اور ہمیشہ دین میں معین رہیں۔ میرا حضرت شیخ پھولپوری کی خدمت میں مسلسل رہنا ان ہی کی وجہ سے ممکن ہوا کیوں کہ انہوں نے خوشی سے اجازت دی کہ جب تک چاہیں شیخ کے ساتھ رہیں۔ حضرت شیخ کے ساتھ پہلی بار جب پاکستان آیا تو ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ایک سال تک واپس جانا نہ ہوا۔ نہ جانے کس مجاہدہ و مشقت اورتنگی سے یہ سال گزارا لیکن کبھی شکایت نہ کی۔ اسی لیے دل کو اتنا غم ہوا جس کو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور ساتھ بھی نصف صدی کا ساتھ دو چار دن کی بات نہیں ؎ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں مقامِ تسلیم و رضا ایک رات تو اچانک میرے منہ سے نکل گیا کہ اے بڑھیا! تو مجھے چھوڑ کر کہاں چلی گئی؟ تو پھر میں نے جلدی سے اپنے دل کو سنبھالا اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ ہم آپ کی مرضی پر راضی ہیں اور اس وقت ان کی رحلت آپ کی منشا سے ہوئی لہٰذا اس وقت سے بہتر کوئی وقت نہیں ہوسکتا تھا کیوں کہ آپ کی تجویز اور آپ کی مرضی سے بڑھ کر دونوں جہاں میں کوئی چیز نہیں اور آپ کے ہر فعل میں حکمت اور بندوں کا فائدہ ہے لہٰذا مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ۔اس لیے اے اللہ! آپ کے فیصلوں پر ہم دل سے راضی ہیں اور فالج کی وجہ سے ایسی حالت ہوگئی تھی کہ اگر دس بارہ دن اور زندگی ہوتی تو بستر پر لیٹے لیٹے کھال زخمی ہونے لگتی، پھر خدانخواستہ اگر سڑنا شروع ہوجاتی تو وہ تکلیف ہم سے برداشت نہ ہوتی لہٰذا جس وقت اے اللہ! آپ نے بلایا وہ ان کے لیے بھی رحمت ہے، ہمارے لیے بھی رحمت ہے۔ بس آپ اپنی