صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
اللہ تعالیٰ کے امتحان کے منصوص پرچے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ ہم ضرور ضرور تمہارا امتحان لیں گے مگرامتحان جو ہوگا بہت ہلکا ہوگا۔ شَیۡءٍ میں جو تنوین ہے وہ تقلیل کےلیے ہے، شَیۡءٍ کے معنیٰ ہیں تھوڑا اور ب داخل کردیا جس کےمعنیٰ ہوئے کہ شَیۡءٍ کا بھی کچھ جز یعنی قلیل ترین بہت تھوڑا،بہت ہلکاپرچہ ہوگالہٰذازیادہ گھبراؤمت اورکس چیزمیں امتحان ہوگا؟آگےپرچۂ مضمون بھی بتادیا۔علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ اگر امتحان لینے والا سوالات کو پہلے ہی سے بتادے تو بتائیے کہ کتنا آسان پرچہ ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے امتحان کے پرچوں کو بتارہے ہیں کہ فلاں فلاں مضامین میں تمہارا امتحان ہوگا،اس لیے امتحان کے پرچوں سے آگاہ فرمادیا اور تفسیر روح المعانی میں ایک وجہ اور بیان فرمائی کہ مصیبت فجائیہ یعنی جو مصیبت اچانک آجاتی ہے وہ زیادہ محسوس ہوتی ہے اوراگرمعلوم ہوجائے کہ یہ مصیبت آنے والی ہے تو اس کے لیے فیلڈ تیار ہوجاتی ہے،صبر آسان ہوجاتا ہے،اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے آگاہ فرمادیا کہ فلاں فلاں مصیبت تم لوگوں کو آئے گی اور ان ان مصائب میں تمہارا امتحان ہوگا۔ تو پہلے سے علم ہوجانے سے پرچہ اور آسان ہوگیا اور اسی لیے اکثر مریض کافی دن تک بیمار رکھے جاتے ہیں تاکہ اس کے متعلقین دھیرے دھیرے اس مصیبت کے لیے تیار ہوجائیں،جب دیکھتے ہیں کہ میرے ماں باپ یا قریبی عزیز چارپائی پر پیشاب پاخانہ کررہے ہیں تو جن کی موت سے ڈررہا تھا وہ خود ہی دعا مانگنے لگتا ہے کہ یااللہ! میرے اماں ابا کو یا بیوی کو یا شوہر کو یہ تکلیف نہ دیجیے،اب تحمل نہیں کہ اگراب زیادہ دن تک فالج رہے گاتومیرے ماں باپ کی کھالیں سڑجائیں گی، زخمی ہوجائیں گی اورتمام بدن سڑ جائے گا۔ کروٹ نہ لینے سے بدن سڑجاتا ہے، یہ حرکت جو ہے ہماری حفاظت ہے،جو ہم چلتے پھرتے رہتے ہیں،اگرایک طرح لیٹے رہیں تو کھال زخمی ہونے لگتی ہے۔ تاثیر صحبتِ اہل اللہ جیسے اصحابِ کہف کو اللہ نے سلادیا اور تقریباً تین سو برس تک وہ سوتے رہے اور زندہ بھی رہے،اللہ نے ان پر صرف نیند طاری کردی تھی، جب ظالم بادشاہ کے ظلم سے بچنے کےلیے وہ غار میں گئے،ایک کتا ان کے ساتھ جانے لگا،یہ اصحابِ کہف اس کو پتھر مار رہے