صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
مصیبت میں صبر کرنا ۱) اَلصَّبْرُ فِی الْمُصِیْبَۃِ مصیبت میں صبرکرنا یعنی اللہ کی مرضی پر راضی رہے، دل سے شکایت اور اعتراض نہ کرے۔حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح نماز فرض ہے، روزہ فرض ہے، حج فرض ہے، زکوٰۃ فرض ہے، جہاد فرض ہے اتنا ہی اللہ کی مرضی پر راضی رہنا بھی فرض ہے جس کا نام رضا بالقضاء ہے۔ اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا یہ صرف سنت اور مستحب اور واجب نہیں بلکہ فرض ہے کہ دل میں اعتراض نہ پیدا ہو اور دل سے شکایت نہ کرے گو آنکھیں اشکبار ہوجائیں۔ اشکبار ہونا اور غم کا اظہار کرنا یہ صبر اور رضا بالقضاء کے خلاف نہیں۔ میرا ایک شعر ہے؎ حسرت سے میری آنکھیں آنسو بہارہی ہیں دل ہے کہ ان کی خاطر تسلیمِ سر کیے ہے بعض نادان کہتے ہیں کہ دیکھو! اتنے بڑے عالم ہوکر رو رہے ہیں۔ وہ نادانی سے سمجھتے ہیں کہ رونا خلافِ سنت ہے حالاں کہ خلافِ سنت تو کیا ہوتا عین اتباعِ سنت ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےصاحبزادے حضرت ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپ کی آنکھوں سےآنسو بہہ پڑے۔صحابہ کے سوال پر آپ نے فرمایا کہ یہ دلیلِ رحمت ہے، یہ بے صبری نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ اپنے پیاروں کے انتقال پر رونا خلافِ صبر نہیں لہٰذا جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ گئے اس نے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ادا کی۔ بعض لوگوں نے ضبط کیا اور نہیں روئے،آہ بھی نہیں کی تو کیا ہوا کہ برداشت نہ کرسکےاورحرکتِ قلب بند ہوگئی لہٰذا اتباعِ سنت میں ہماری حیات ہے، ہماری زندگی کی ضمانت ہے۔ اس لیے غم میں کچھ آہ کرلو، کچھ رولو، کچھ مرنے والے کا تذکرہ بھی کرلو، یہ دلیلِ رحمت ہے، دلیلِ تعلق ہے اور اس سے دل ہلکا ہوجاتا ہے،یہ خلافِ صبرنہیں۔ بے صبری یہ ہے کہ اعتراض کرنے لگے یا زبان سے شکوہ کرے کہ میرےعزیز کو ابھی سے کیوں اُٹھالیا وغیرہ۔ طاعت پر صبر کرنا اور صبر کی دوسری قسم کا نام ہے اَلصَّبْرُ عَلی الطَّاعَۃِ یعنی جو نیک اعمال کرتا