صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
ہم تمہارا امتحان لیں گے لیکن گھبرانا نہیں،یہ پرچہ بھی بہت آسان اور ہلکا ہوگا۔بِشَیۡءٍکا استعمال بھی تقلیل کے لیے ہے اور تنوین بھی تقلیل کے لیے اور من بھی تبعیضیہ ہے یعنی بہت ہی قلیل خوف سے تمہاری آزمایش ہوگی جو دُشمنوں سے یا نزولِ حوادث یا مصائب کی وجہ سےپیش آئےگا۔علامہ آلوسی فرماتے ہیں اَلْمُرَادُ بِالْخَوْفِ خَوْفُ الْعَدُوِّ 9 ؎ خوف سے مراددُشمن کا خوف ہے۔ انبیاء علیہم السلام پر مصائب کی وجہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ 10؎ہر نبی کے لیے ہم نے دُشمن بنایا،یہ جَعَلۡ تکوینی ہے، انبیاء کی ترقیٔ درجات و تربیت کے لیے۔ پس جس کا کوئی دُشمن نہ ہوسمجھ لویہ شخص عَلٰی مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃِ نہیں ہےورنہ اس کے بھی دُشمن ہوتے،اگرچہ اُمتی کا پرچہ نبیوں سےآسان ہوتا ہےکیوں کہ بڑےلوگوں کا امتحان بھی بڑا ہوتا ہے۔اس لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنے مصائب مجھےدیے گئے کسی نبی کوان مصائب سےنہیں گزارا گیا کیوں کہ آپ سیّد الانبیاء تھے، لہٰذا ؎ جن کے رتبے ہیں سِو ا ان کو سِوا مشکل ہے اسی طرح صحابہ کو دُشمن کا خوف رہتا تھا۔ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ یہاں تک کہ بعض وقت کلیجے منہ کو آگئے۔ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا 11؎ اور سخت زلزلے میں ڈالے گئے، ان کو ہلادیا گیا،لیکن پھربھی وہ حَسۡبُنَا اللہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ 12؎کہتے تھے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ غرض وہ خوف میں مبتلا کیے گئے۔ اولیاء اللہ پر مصائب کی وجہ بات یہ ہے کہ اللہ جس کو اپنا مقبول بناتا ہے، بڑے درجے کی عزت دیتا ہے تو اس کو _____________________________________________ 9 ؎روح المعانی:22/2 البقرۃ(155)،مکتبۃ داراحیاءالتراث،بیروت 10؎الفرقان: 31 11؎الاحزاب:11-10 12؎اٰل عمرٰن:173