صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
شرح حدیث’’ اِنَّ لِلہِ مَا اَخَذَ ‘‘ اب حدیثِ پاک کاترجمہ کرتاہوں کیوں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کےالفاظ تعزیت میں جوتسلی ہے وہ دنیا بھر کے کلام میں نہیں ہوسکتی۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اِنَّ لِلہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَ جَلٍ مُّسَمًّی 24؎ اللہ نے جو چیز ہم سے لے لی وہ اللہ ہی کی تھی۔ لِلہِ میں لام تملیک کا ہے کہ اللہ ہی اس کا مالک ہے۔اگر کوئی امانت کے طور پر کوئی چیز آپ کو دے کہ اس کو اپنے پاس رکھو پھر جب وہ واپس لیتا ہے تو آپ کو غم نہیں ہوتا۔ہم کو جو مرنے والوں کا حد سے زیادہ غم ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے ہم لوگ اس کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں حالاں کہ وہ ہماری ملکیت نہیں تھی بلکہ اللہ کی امانت تھی۔ وَلَہٗ مَااَعْطٰی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ لہٰذا جو نعمتیں ہمارے پاس ہیں جو اعزا موجود ہیں، سب نعمتو ں پر اللہ کا شکر ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ہر چیز کا وقت مقرر ہے جو کچھ اللہ لیتا ہے اور جو کچھ عطا فرماتا ہے، ہر چیز کا وقت اللہ کے ہاں مقرر ہے کہ فلاں وقت اس کو فلاں چیز عطا ہوگی اور فلاں وقت فلاں چیز واپس لی جائے گی۔ پس عطا پر شکر کرو اور مافات پر صبرکرو اور ثواب کی اُمید رکھو؎ عبدیت کا توازن ہے قائم صبر سے شکر سے اس جہاں میں اور مرنے والے کو ایصالِ ثواب کریں جانی بھی اور مالی بھی یعنی عباداتِ نافلہ و تلاوت وغیرہ کا ثواب بھی پہنچائیں اور مال خرچ کرکے صدقۂ جاریہ کا ثواب بھی پہنچائیں اور مالی ثواب مردے کے لیے زیادہ نافع ہے۔ بس اب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔یہاں جتنے حضرات اور خواتین ہیں جس کو جو غم ہو یااللہ! اس کو خوشیوں سے بدل دے، جس کی جو جائز حاجت ہو اس کو یااللہ! پوری فرمادے اور اپنی رحمتوں کی بارش فرمادے اور ہم سب کو صبرِجمیل عطا فرمادے۔ خاص کر ہمارے خاندان والوں کے لیے کیوں کہ جو قریب ہوتا ہے اس کو غم بھی زیادہ ہوتا _____________________________________________ 24؎صحیح البخاری:171/1 (1285)، باب یعذب المیت ببعض بکاء اہلہ علیہ،المکتبۃ المظہریۃ