صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
کہ اس عمل میں اللہ تعالیٰ خود شریک ہیں۔معلوم ہوا کہ لفظ صلوٰۃ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت ہوتی ہے تو معنیٰ کچھ اور ہوتے ہیں اور فرشتوں اور مؤمنین کی طرف نسبت ہوتی ہے تو دوسرے معنیٰ ہوتے ہیں۔ پہلی بشارت ’’رحمتِ خاصہ‘‘ تو صابرین کے لیے اللہ کی طرف سے جو بشارت دی جارہی ہے وہ کیا ہے؟ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ صلوات جمع ہے صلوٰۃ کی معنیٰ خاص خاص رحمتیں یعنی اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں پر خاص خاص رحمتیں نازل فرمائے گا لیکن آگے وَ رَحۡمَۃٌ نازل فرماکربتادیا کہ میں رحمت عامہ سے بھی اپنے صبرکرنے والے بندوں کومحروم نہیں کروں گا۔یہ تعمیم بعد التخصیص ہے کہ صابرین پر خاص خاص رحمتیں تو اللہ برسائے گا ہی مگر رحمتِ عامہ بھی دے گا یعنی رحمتِ خاصہ کے آبشار کے تسلسل کے ساتھ رحمتِ عامہ بھی ملے گی۔ پے درپے صلوات اور رحمت پہ رحمت نازل ہوگی۔ یہ تفسیر بیان القرآن ہے جو پیش کررہا ہوں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ صلوات سے مراد خاص خاص رحمتیں ہیں۔ دوسری بشارت ’’رحمتِ عامہ‘‘ اور جو بعد میں وَرَحْمَۃٌ ہے یہ تعمیم بعد التخصیص ہے یعنی رحمتِ عامہ مراد ہے اور اس کی وجہ حضرت نے عجیب فرمائی کہ چوں کہ حکم صبر پر عمل کرنے میں تمام صابرین مشترک ہیں، اس لیے اس کا بدلہ رحمتِ عام ہے لیکن چوں کہ ہر صابر کے صبر کی کیفیت وخصوصیت و کمیت جدا ہے لہٰذا ان خصوصیات کا صلہ بھی جدا جدا خاص عنایتوں سے ہوگا،جتنا جس کا صبر ہوگا اتنی ہی عنایتِ خاصہ اس پر مبذول ہوگی۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ اور یہ نزولِ رحمت تمہارے رب کی طرف سے بدون واسطہ ملائکہ ہوگا یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست رحمتیں نازل ہوں گی۔ مِنْ رَّبِّہِمْ فرمایا کہ تمہارا ربّ براہِ راست تم پر رحمت نازل کرےگا۔دیکھو! کوئی دوست کسی کو براہِ راست کوئی چیز دےاورخود نہ دے بلکہ کسی کے ذریعے سے دے فرق ہے یا نہیں؟ تو مِنْ رَّبِّہِمْ سے اللہ تعالیٰ نے مزہ بڑھادیا اور صبرکو میٹھا کردیا کہ تمہارے ربّ کی طرف سے بدون واسطہ ملائکہ رحمتِ خاصہ بھی ملے گی اور رحمتِ عامہ بھی۔