صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
میرےاس قول کی تائید ہے کہ مولانا رومی کو سو برس کی تہجد سے جو قرب عطا ہوتا وہ شمس الدین تبریزی کی صحبت سے چند دنوں میں عطا ہوگیا۔پس جو شخص صبر کی مذکورہ تینوں قسمو ں پرعمل کرے گا تو پھر اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ 16؎ یعنی اللہ تعالیٰ کی معیت خاصہ کاانعام ہے اورصبرکی بدولت ہی ولایت کا سب سے اعلیٰ مقامِ صدیقیت نصیب ہوتا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ صبر بگزیدند و صدیقیں شدند انہوں نے صبراختیار کیا اور مقامِ صدیقیت تک پہنچ گئے۔یہ نہیں کہ مصیبت پرصبرکرلیا، طاعت پربھی صبرکرلیا لیکن شراب و زنا اور بدمعاشی جاری ہے۔ معیتِ خاصہ کا انعام جب ملتا ہے جب صبر کی تینوں قسموں پرعمل ہو۔خصوصاً جو اَلصَّبْرُ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ یعنی گناہوں کے تقاضوں پر صبر نہیں کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی ولایتِ علیا سے محروم رہے گا۔ ولایتِ عامہ تو ہرمؤمن کو حاصل ہے مگر میں جو یہ کہہ رہا ہوں کہ جو چاہے کہ میرے قلب میں شکستگی آجائے، میرا دل اللہ کی محبت میں جلا بھنا کباب ہو اور میرے قلب پر تجلیاتِ الٰہیہ متواترہ مسلسلہ بازغہ وافرہ عطا ہوں تو وہ گناہوں سے بچنے کا غم اُٹھالے۔ ولایت و نسبت کی علامت پھر وہ جہاں جائے گا اللہ کے عشق و محبت کے مشک کی خوشبو اُڑجائے گی۔ بڑے بڑے علماء تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے کہ آہ! یہ علوم تو ہم نے بھی پڑھے ہیں، مگر اس کی زبان سے کیا بات نکل رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ وہ ہرن ہے جس کے نافہ میں مشک ہے۔ دو ہرن کھڑے ہیں،ایک کے پیٹ سے مینگنی نکل رہی ہے،مشک سے اس کا نافہ خالی ہے اور دوسرا ہرن اپنے پیٹ میں آدھا کلو مشک رکھتا ہے، لاکھوں لاکھوں کا مشک ہے تو پھر یہ کھڑا رہتا ہے،لیٹ کر گہری نیند نہیں لیتا، کھڑے کھڑے اونگھ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو قوت دیتا ہے، یہی ہلکی سی اونگھ اس کے لیے کافی ہے،کھڑا رہے گا، نہ لیٹے گا، نہ بیٹھے گا کیوں کہ اس کے پاس _____________________________________________ 16؎البقرۃ:153