صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
عمل کرکے اُمت کو دکھادیا لیکن پھر آخر میں ایک قاعدہ کلیہ بھی بتادیا چوں کہ ہر شفیق اور مہربان استاد چند جزئیات کے بعد ایک کلیہ بیان کردیتا ہے تاکہ شاگرد اس پر قیاس کرسکے لہٰذا رحمۃللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلیہ بیان فرمادیا تاکہ قیامت تک آنے والی اُمت اپنی ہرحالت کو اس پر منطبق کرسکے اور قیاس کرسکے کہ اِنَّالِلہِ پڑھنے کے کیا مواقع ہوسکتے ہیں لہٰذا آپ نے کلیہ کے طور پر مصیبت کی تفسیر بیان فرمادی کہ کُلُّ مَا یُؤْذِی الْمُؤْمِنَ فَھُوَ مُصِیْبَۃٌ لَّہٗ وَلَہٗ اَجْرٌ ؎ہر وہ چیز جو مؤمن کو تکلیف پہنچادے وہ اس کے لیے مصیبت ہے اوراس پراجر ہے۔اورایک بات اوربھی سن لو کہ اگردس سال پہلے کی مصیبت یادآجائے، جیسےدس سال پہلے کسی کا انتقال ہوا اور آج اس کا خیال آ گیا اور دل میں تھوڑا سا غم آگیاتو پچھلی مصیبتوں پر بھی جو اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رَاجِعُوۡنَ پڑھے گا اس کو بھی اجر ملے گا۔ اس اُمت کی ایک امتیازی نعمت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری اُمت کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے جو سابقہ اُمتوں میں سے کسی اُمت کو نہیں دی گئی اور وہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت تم اِنَّا لِلہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہو۔ لہٰذا ہم سب کو اپنی قسمت پر شکر کرنا چاہیےکہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اور طفیل میں وہ نعمت دی جو پچھلی اُمتوں میں کسی کو بھی نہیں دی۔ اور فرمایا کہ اگر پہلے کسی کو یہ نعمت دی جاتی تو سب سے زیادہ حق حضرت یعقوب علیہ السلام کا تھا کہ جب ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام گم ہوگئے تو اس وقت وہ کہتے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ لیکن چوں کہ یہ نعمت کسی نبی کو نہیں دی گئی، اس لیے بیٹے کے گم ہونے پر آپ کو جو غم پہنچا تو آپ نے کہا یٰآسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ ہائے یوسف افسوس! لہٰذا اس اُمت کو اِنَّالِلہِ مابہ الامتیاز نعمت ہے جو سارے عالم میں ہم کو امتیازی شرف دیتی ہے، اُممِ سابقہ سے ممتاز کرتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے صدقے میں اللہ تعالیٰ کے کیسے کیسے کرم ہمیں عطا ہوئے۔ _____________________________________________ 20؎روح المعانی:23/2 البقرۃ(156)،داراحیاءالتراث،بیروت