صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
ذرا خو ف سے بھی گزارا جاتا ہے تاکہ اس کا دل مضبوط ہوجائے اور اتنا غم پہنچایا جائے کہ جب اس کو ساری دنیا میں عزت اور خوشی ملے تو اس کےسابقہ غم تکبر سے اس کی محافظت کریں، اس کی عبدیت کا زاویہ قائمہ۹۰ ڈگری قائم رہے،ایسا نہ ہو کہ چاروں طرف سے واہ واہ ہو تو اس کی آہ ختم ہوجائے۔ جس متبع سنت بندے کو اللہ تعالیٰ بڑا رُتبہ دینا چاہتے ہیں اس کو اتنا غم دیتے ہیں کہ اس کی آہ نہ باہ سے ضایع ہوتی ہے نہ جاہ سے ضایع ہوتی ہے اور نہ واہ واہ سے ضایع ہوتی ہے۔ سارا عالَم اس کی تعریف کرے لیکن اس کی بندگی اور اس کی عاجزی،اس کی آہ و زاری،اس کی اشکباری ہمیشہ قائم اورتابندہ درخشندہ اورپایندہ رہتی ہے،اس لیےغم سے گھبرانا نہیں چاہیے، ایسےحالات سےاللہ تعالیٰ گزار دیتا ہے۔دیکھ لو!صحابہ کو خطاب ہورہا ہے وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ اورجنگِ بدروغیرہ میں کیسے کیسے مصائب سے گزرے لیکن انبیاء کو جو مصائب دیے جاتے ہیں وہ ان کی بلندیٔ درجات کے لیے ہوتے ہیں۔ انبیاء کو عجب و کبر سے حفاظت کے لیے نہیں دیے جاتے کیوں کہ نبی معصوم ہوتا ہے، اخلاقِ رذیلہ اس کے اندر پیدا ہی نہیں ہوسکتے، اس لیے انبیاء کے مصائب ان کی رفعتِ شان اور بلندیٔ درجات کے لیے ہوتے ہیں لیکن اولیاء اللہ کو خوف اور مصیبت جو پیش آتی ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ عجب و کبر سے ان کی حفاظت رہے۔ امتحان کا دوسرا پرچہ اور خوف کے بعد دوسرے امتحان سے آگاہ فرمارہے ہیں وَ الۡجُوۡعِ تمہارے امتحان کا دوسرا پرچہ بھوک ہے۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ یہاں بھوک سے مراد قحط ہے، اصل میں بھوک مسبب ہے،اس کا سبب قحط ہے لہٰذا اس کی تفسیر قحط سے کی کہ بارش نہیں ہوگی تو غلّہ کم ہوجائے گا اور روٹی نہیں ملے گی تو بھوک لگے گی تو یہ تسمیۃ السبب باسم المسبب ہے۔ اس کو بلاغت کے علم میں مجاز مرسل کہتے ہیں۔ اس نبی اُمّی کی زبان سے مجاز مرسل کا استعمال جس نے کبھی مکتب کا منہ نہ دیکھا ہو، نہ مختصر المعانی پڑھی ہو، نہ مجازِ مرسل کا نام سنا ہو، یہ دلیل ہے کہ یہ نبی اپنی طرف سے کلام نہیں بناتا۔ بکریاں چرانے والا پیغمبر اپنی بلاغت سے تمام عالَم کو عاجز کررہا ہے۔ اس اُمّی کی زبان سے ایسا فصیح و بلیغ کلام جاری ہونا خود دلیل ہے کہ یہ نبی کا کلام