صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
رحمت سے ان کی مغفرت بے حساب فرمائیے اور اپنی آغوشِ رحمت میں لے لیجیے اور کروٹ کروٹ چین عطا فرمائیے اور ہم سب کو صبرِِ جمیل عطا فرمائیے اور ان کی برکت سے ہمارے تمام جائز کام اپنی رحمت سے بنادیجیے۔ حضرت پیرانی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا کے حالاتِ رفیعہ آج ایک راز کی بات بتاتا ہوں کہ میں ان کی بزرگی کا اتنا معتقد ہوں کہ ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا تھا کیوں کہ میں نے پچاس سال ان کو دیکھا کہ انتہائی تہجد گزار، بڑی صابرہ، بہت شاکرہ تھیں، دنیا کی محبت تو جانتی ہی نہ تھیں، زندگی بھر کبھی فرمایش نہیں کی کہ ہمیں ایسا کپڑا لادو یا ویسا، جانتی ہی نہ تھیں کہ دنیا کہاں رہتی ہے۔ جب گھر میں جاتا تو دیکھتا کہ قرآن شریف کھلا ہوا ہے اور تلاوت ہورہی ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ایک نعمتِ عظمیٰ بنایا تھا اور سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ ان کے پیٹ سے مجھے اللہ تعالیٰ نے مولانامظہر کو عطا فرمایا، پھر ان کے ذریعے سے ہمیں پوتے عطا فرمائے جو سب ماشاء اللہ حافظ ہیں اور عالم ہورہے ہیں، کچھ عالم ہوچکے اور کچھ ہورہے ہیں، جس زمین سے سونے کا پہاڑ ملا ہو اس کی انسان کتنی قدر کرتا ہے، نیک اولاد کی نعمت عظمیٰ کا ذریعہ اور جڑ تو وہی ہیں لہٰذا طبعی غم تو فطری بات ہے اوررحمت کا تقاضا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی پرالحمدللہ!دل بالکل راضی ہے،ایک نہ ایک دن تو جانا ہے۔ مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ کا جب انتقال ہوا تو انتقال سے کچھ پہلے اپنی ڈائری میں ایک شعر لکھ دیا تاکہ میرے بعد میرے بچے زیادہ نہ روئیں۔ عجیب پیارا شعر ہے ؎ لوگ کہتے ہیں کہ مظہر مر گیا اور مظہر درحقیقت گھر گیا یعنی میں تو اپنے گھر اپنے وطن جارہا ہوں، جہاں اپنے بچوں اور بڑوں اور خاندان کے تمام بزرگوں سے مل کر اور سب سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوکر کتنا خوش ہوں گا۔ مرنا درحقیقت اپنے گھر جانا ہے، ہمارا زیادہ خاندان تو وہیں ہے۔ انتقال سے چند دن پہلے کہنے لگیں کہ ابھی ابھی ہمارے بیٹے اظہر اور اطہر آئے تھے۔ دو بیٹے مولانا مظہر سے پہلے پیدا ہوئے تھے جن کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ جب یہ کہا تو اسی وقت دل کھٹک