صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
ہے، دین کا جو کام کرتا ہے جیسے نماز، روزہ، ذکر و تلاوت سب پر قائم رہے۔ فرماں برداری وطاعت پر قائم رہنا بھی صبر ہے۔ گناہو ں سےصبر کرنا اور تیسری قسم ہے۔ اَلصَّبْرُ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ 15؎جب گناہ کا تقاضا ہو تو نفس کو گناہ سے روکنا اورنفس پرکنٹرول رکھنااور اس گناہ سے رُکنے میں دل پر جو غم اور دُکھ آئے اس کو برداشت کرنا یہ صبرسب سے اعلیٰ ہے،یہ وہ صبر ہے جس سے انسان ولی اللہ بن جاتا ہے۔ جس کا دل گناہ کے لیے بے چین ہورہا ہو، جو شخص گناہوں کے شدید تقاضے دل میں رکھتا ہو اگر کوئی حسین شکل سامنے آجائے تو اسے دیکھنے کا شدید تقاضا ہوتا ہے مگر یہ تقاضے پر عمل نہیں کرتا اور چوں کہ تقاضا شدید ہے، اس کی وجہ سے اس کے بچنے میں اس کو مجاہدہ شدید ہوگا اور جب مجاہدہ شدید ہوگا تو اس کو مشاہدہ بھی شدید ہوگا یعنی اللہ کی تجلی اس کے قلب پر قوی تر ہوگی۔ قلبِ شکستہ اور نزولِ تجلیاتِ الٰہیہ اس لیے جو لوگ نظر بچاتے رہتے ہیں اور گناہ سے بچنے کا شدید غم اُٹھاتے رہتے ہیں، جو سینے میں ایسا دل رکھتے ہیں جو اللہ کو خوش کرنے کے لیے اپنی خوشیوں کا خون کرتا رہتا ہےتو ایسے دلوں پر اللہ تعالیٰ کی تجلیاتِ قربِ الٰہیہ متواترہ مسلسلہ وافرہ بازغہ عطا ہوتی ہیں۔ جن کے سینے ایسے دل کے حامل ہوں ان کے پاس بیٹھ کے دیکھو، ان کی شان کوکرکی ہوجاتی ہے جو آج کل کی جدید ایجاد نے ثابت کردیا کہ جو بریانی پانچ چھ گھنٹے میں تیار ہوتی تھی اب چند منٹ میں تیار ہوجاتی ہے۔پس ایسے دلوں کی صحبت بھی کوکر کی شان رکھتی ہے کہ چند صحبتوں میں ان کے ساتھ رہنے والوں کو نسبتِ اولیائے صدیقین عطا ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کےیہ غم اُٹھانے والے بندے اپنے سینے میں قلبِ شکستہ،ٹوٹا ہوا دل اور خونِ آرزو کا دریا رکھتے ہیں۔ ان کی صحبتوں میں بیٹھو پھر دیکھوگے کہ اللہ کے راستے کی جو مسافت دس سال میں طےہوتی وہ چند گھنٹوں میں ان شاء اللہ طے ہوجائے گی۔ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد _____________________________________________ 15؎روح المعانی:175/4، اٰل عمرٰن (200)،مکتبۃ داراحیاءالتراث، بیروت