صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
کے ہیں اور جب دعا مانگ رہا ہو تو صلوٰۃ کے معنیٰ دعا کے بھی ہیں۔ صلوٰۃ کی نسبت جب مخلوق کی طرف کی جائے گی تو مراد ہے نماز اور دعا اور جب اللہ کی طرف نسبت کی جائے کہ اللہ تعالیٰ صلوٰۃ بھیج رہا ہے تو وہاں مراد نزولِ رحمت ہے۔ اسی طرح صلوٰۃ کے معنیٰ دعائے مغفرت کے بھی ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی بندہ اللہ کی محبت میں کسی بندے کے پاس جاتا ہے تو ستر ہزارفرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں۔ جیسا کہ اس فقیر کی محبت میں اللہ کے لیے آپ لوگ یہاں آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور رسول کے وعدوں پر ایمان لانا ضروری ہے کہ ستر ہزار فرشتے گھرسےساتھ چلتے ہیں شَیَّعَہٗ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ کُلُّھُمْ یُصَلُّوْنَ عَلَیْہِ اَیْ یَّسْتَغْفِرُوْنَ لَہٗ یعنی ستر ہزار فرشتے راستے بھر اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے نیک گمان سے کسی کو اللہ والا سمجھ کرمحض اللہ کے لیے اس سے ملاقات کرنے آتے ہیں تو ستر ہزار فرشتوں کی ڈیوٹی لگادی جاتی ہے جو راستے بھر اس کے ساتھ چلتے ہیں اوراس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور جب وہ مصافحہ کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے کہتے ہیں رَبَّنَا اِنَّہٗ وَصَلَ فِیْکَ اَیْ لِاَجْلِکَ یا اللہ،یہ آپ کے لیے مل رہا ہے، آپ کی وجہ سے محبت کررہا ہے، فَصِلْہُ 21 ؎ اس کو اپنے سے ملالیجیے۔ اسی لیے جو لوگ اللہ والوں سے ملتے ہیں جلد اللہ والے ہوجاتے ہیں،کیوں کہ ستر ہزار فرشتوں کی دعائیں لگتی ہیں۔ دیکھیے! صلوٰۃ کے معنیٰ ہر جگہ کے اعتبار سے بدل رہے ہیں،اس حدیث میں صلوٰۃ کی نسبت جب فرشتوں کی طرف ہوئی تو یہاں معنیٰ ہوئے دعائے مغفرت لیکن صلوٰۃ کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے تو اس کے معنیٰ ہوتے ہیں نزولِ رحمت۔ صلوٰۃ علی النبی کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕیٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡاصَلُّوۡاعَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا 22؎ حضرت حکیم الامت مجدد الملت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بیان القرآن میں اس کا یہ ترجمہ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے رحمت _____________________________________________ 21؎شعب الایمان للبیھقی:493/1(9024)،قصۃ ابراھیم فی المعانقۃ،مکتبۃ دارالکتب العلمیۃ 22؎الاحزاب: 56