صبر اور مقام صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
حقیقی صبر کیا ہے؟ علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ صبر صرف زبان سے اِنَّالِلہِ پڑھنے کا نام نہیں سنتِ استرجاع یعنی اِنَّالِلہِ پڑھنے کی سنت حقیقی معنوں میں اس وقت ادا ہوگی جب زبان کے ساتھ دل بھی شامل ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں، ملکیت ہیں، مملوک ہیں اور مالک کو اپنی ملک میں ہر قسم کے تصرف کا اختیار ہوتا ہے،لہٰذا ہمارے گھر میں مولانا مظہر سلمہٗ کی والدہ بھی اللہ کی ملکیت تھیں۔ مالک کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کو جہاں چاہے رکھے اور جب تک چاہے رکھے اور جہاں چاہے اُٹھاکررکھ دے۔ اِنَّالِلہِ سے مراد یہی ہے کہ ہم ہر طرح سے اللہ تعالیٰ کی مِلک ہیں اور مالک کو ہم پر ہر طرح کے تصرف کا حق حاصل ہے۔ وَ اِنَّاۤاِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ اوریہ جدائی عارضی ہے، ہم لوگ بھی وہیں جانے والے ہیں۔ یہ دو جملے ہیں، ان سے بڑھ کر کائنات میں صبرکا کوئی کلمہ نہیں ہوسکتا،مصیبت میں اس کلمہ سے زیادہ مفیدو لاجواب موتی کا کوئی مفرح خمیرہ نہیں پیش کرسکتا۔ اِنَّالِلہِ کی تفہیم کے لیے ایک انوکھی تمثیل حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اگر کوئی انسان ایک الماری کا مالک ہو جس کے دو خانے ہوں، اس نے نیچے کے خانے میں ایک درجن پیالیاں رکھ دیں اور دو سال کے بعد نوکر سے کہا کہ نیچے کے خانے کی دو پیالیاں اُٹھاکر اوپر کے خانے میں رکھ دو۔ تو نوکر نے کہا کہ حضور! آپ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ دو سال سے تو یہ ساتھ تھیں۔ فرمایا کیوں مت لگا بے وقوف! الماری میری، دونوں خانے میرے اور ان خانوں میں جو پیالیاں ہیں وہ بھی میری، سب کا میں مالک ہوں، مالک کو حق ہے کہ اپنی چیز کو جہاں چاہے رکھے۔ نوکر نے کہا اچھا حضور! یہ بات تو سمجھ میں آگئی میں اوپر ہی رکھ دیتا ہوں لیکن نچلی الماری کے خانے میں باقی دس پیالیاں جو ہیں وہ سب دو پیالیوں کی جدائی سے غمگین ہیں اور رو رہی ہیں، آپ مالک ہیں، آپ کو تصرف کا حق حاصل ہے مگر ان کے غم کا کیا مداوا ہے؟ مالک نے کہا بے وقوف! نیچے کے خانے میں کوئی نہیں رہے گا، ہم سب کو یکے بعد دیگرے اوپر رکھنے والے ہیں۔ حکیم الامت تھانوی فرماتے ہیں کہ