درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
احقرراقم الحروف ببانگِ دہل کہتا ہے ؎ دل میں ہر لحظہ ترے جلوۂ جاناں دیکھوں ہاتھ میں گرچہ ترے سُبحۂ صد دانہ نہیں تری آنکھوں میں ہے وہ مستیٔ صہبائے ازل جس کے آگے کوئی شے مستیٔ پیمانہ نہیں تری آنکھوں سے ملاتی نہیں نرگس آنکھیں اس کی آنکھوں میں تری مستیٔ خُمخانہ نہیں مُفت بٹتی ہے مئے نابِ محبت یاں پر ترے مے خانے سا دیکھا کوئی مے خانہ نہیں اور احقر کی کیا حقیقت ہےجب کہ دنیا بھر میں بڑے عُلماء محدثین و مُفسرین حضرت والا کی شان میں رطب اللسان اور حضرت والا کے کمالات کے معترف اور حلقۂ ارادت میں مُنسلک ہیں ؎ میں ہی اس پر مرمِٹا ناصح تو کیا بے جا کیا میں تو دیوانہ تھا دنیا بھر تو سودائی نہ تھی مثنوی کا یہ درس جس میں عشق و محبت کی آگ بھری ہوئی ہے، جس کے ایک ایک لفظ میں آتشِ عشق کی برقی رو دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایسی تند و تیز شرابِ عشقِ جام سُنّت و شریعت میں محصور ہے کیا مجال کہ عشق و مستی حدودِ شریعت سے باہر قدم رکھ دے۔ حضرت والا مدظلہم العالی فرماتے ہیں کہ تصوّف تمام ترسُنّت و شریعت ہے اور وہ تصوّف تصوّف ہی نہیں جو قرآن و سُنّت کے خلاف ہے اور جو عشق حدودِ شریعت کو توڑ دے اس قابل ہے کہ اس عشق ہی کو توڑ دیا جائے۔ چناں چہ یہ ’’درس مثنوی مولانا روم‘‘ اپنی نوع کا انوکھا درس ہے جس میں مثنوی کے اشعار کی تشریح عشق و مستی کی تیز والی