درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
فٹ کا انسان بنادیا اور اسی قطرہ میں بینائی کا خزانہ رکھ دیا کہ وہ ناپاک قطرہ آج دیکھ رہا ہے، شنوائی کا خزانہ رکھ دیا کہ وہ ناپاک قطرہ آج سن رہا ہے، گویائی کا خزانہ رکھ دیا کہ وہی قطرہ آج بول رہا ہے وغیرہ۔ دنیا میں کون ایسا مصور ہے جو پانی پر نقش و نگار بناسکے؟ یہ صرف حق تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ ہے جو قطرۂ منی پر صورت گری کرتی ہے ؎ دہد نطفہ را صورتے چوں پری کہ کردہ است برآب صو رت گری اے اللہ ! نطفۂ ناپاک کو آپ خوبصورت انسانی شکل عطا فرماتے ہیں اور آپ کی قدرتِ قاہرہ پانی پر صورت گَری کرتی ہے یعنی قطرۂ منی پر آنکھ، ناک آپ نے بنائے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ شکر از نے میوہ از چوب آوری از منی مُردہ بُتِ خوب آوری اے اللہ! آپ گنے کے ڈنڈوں میں رس ڈال کر شکر پیدا فرماتے ہیں اور مُردہ اور بے جان منی سے انسان احسنِ تقویم میں پیدا فرماتے ہیں یہ سب آپ کی قدرتِ قاہرہ کا کمال ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ایسے احسان کرنے والے رب پر تو جان دینا چاہیے تھا ان سے تو ہماری جانوں کو ایسا تعلق ہونا چاہیے تھا کہ ؎ ترا ذکر ہے مری زندگی ترا بھولنا مری موت ہے ان کی یاد ہماری زندگی اور ایک لمحہ ان کو بھولنا ہماری موت ہے لیکن آہ! ایسے احسان کرنے والے مولیٰ پر ہم صبر کیے ہوئے ہیں جو ہمارا خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے، پالنے والا ہے۔ ان پر جان فدا کرکے بھی ان کے احسانات کا حق ادا نہیں ہوسکتا کیوں کہ جان ان ہی کی دی ہوئی ہے اگر ان پر قربان کردی تو کیا کمال کیا ؎ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا