درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں: لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَ الْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ؎ اللہ تعالیٰ حرام نظر کرنے والوں پر بھی لعنت فرماتا ہے اور جو اپنے کو حرام نظر کے لیے پیش کرے اس پر بھی لعنت فرماتا ہے یعنی دیکھنے والے پر بھی لعنت برستی ہے اور دکھانے والے پر بھی۔ جو عورتیں بے پردہ پھرتی ہیں ان پر بھی لعنت برستی ہے اور جو ان کو دیکھتا ہے اس پر بھی لعنت برستی ہے تو ڈبل لعنت جمع ہوجائے گی: ایک ناظریت کی لعنت اور دوسری منظور یت کی لعنت جس کو آج کل کی زبان میں کہتے ہیں لعنت پلس (+) لعنت۔ کیا کہیں مجبوراً انگریزی الفاظ بولنے پڑتے ہیں ورنہ لوگ سمجھتے نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر صرف روزہ، نماز، حج، تلاوت کا حکم ہوتا اور یہ گُناہ سے بچنے کا حکم نہ ہوتا تو آسانی ہوجاتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بتائیے کسی کے گھر میں روشنی پلس اور مائنس تار کے بغیر ہوتی ہے؟ دونوں تار ہوتے ہیں پلس اور مائنس، مثبت اور منفی تو اللہ تعالیٰ نے روزہ، نماز،تلاوت کا حکم دے کر ہمیں اپنامثبت تار دیا اور گناہوں سے بچنے کا حکم دے کر منفی تار دیا تاکہ میرے بندوں کے قلب میں میری محبت کے چراغ جل جائیں۔ یہ دیے ایسے ہی تھوڑی جلتے ہیں، جب کوئی آگ دیتا ہے تب دیا جلتا ہے یعنی جب اپنی حرام خواہشات میں آگ لگادیں گے، جب اپنی خواہشات اللہ پر فدا کریں گے تب اللہ کی محبت کا چراغ روشن ہوگا۔ مائنس اور پلس دونوں تار کی ضرورت ہے اور مائنس کا تار پلس کے تا ر سے بھی زیادہ اہم ہے کیوں کہ ضروری عبادت فرض، واجب، سُنّتِ مؤکدہ، تو بہت تھوڑی ہے لیکن گُناہ نہ کرنے کی عبادت کے مواقع بہت زیادہ ہیں کیوں کہ اس دور میں بے پردگی و عریانی کی فراوانی ہے اس لیے بس نگاہ بچالو تو پھر حلاوتِ ایمانی کی بھی فراوانی ہے۔ لیکن اس میں دل کا خون کرنا پڑتا ہے مگر اسی خونِ آرزو سے اللہ ملتا ہے اس لیے گُناہ نہ کرنے کی عبادت بہت بڑی عبادت ہے اسی لیے گناہوں سے بچنے والے کو اَعْبَدُالنَّاسِ یعنی سب سے بڑا عبادت گزار حدیثِ پاک میں فرمایا گیا۔حرام سے بچنا ------------------------------