انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لئے آیا ہے عبادت کا مطلب یہ ہے کہ احکام خداوندی پر عمل کرے، عبادت کے عوض اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ اجروثواب مقرر فرمایا ہے جو آخرت میں ملے گا اور درحقیقت اصل زندگی (جو زندگی کہنے کے قابل ہے) آخرت ہی کی زندگی ہے جہاں نہ فنا ہے نہ موت ہے اسی زندگی کے بنانے اور سدھارنے کے لئے فکر کرنا اور محنت لگانا سب سے بڑی عقلمندی اور کامیابی ہے واجبی ضرورت کے بقدر دنیا حاصل کرنا مناسب ہے دنیا کو مقصد بنانا بہت بڑی بھول اور نادانی ہے ہوشیار وہی ہے جس نے آخرت کو مقصد بنایا اور اپنی محنتوں اور کوششوں کو حصول جنت کے لئے خرچ کیا۔
زندگی بہت بڑی نعمت ہے اس کی غنیمت جان کر ہر وقت آخرت کی کمائی میں لگانا چاہیے اور دنیا کو بھی آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنا لینا چاہیے زندگی کا بہترین حصہ جوانی ہے جس میں ہر مشکل برداشت ہوسکتی ہے اور ہر طرح سے محنت ومجاہدہ ہوسکتا ہے اس کو خصوصیت کے ساتھ مزے اڑانے اور گناہ کرنے میں لگاتے اور خرچ کرتے ہیں حالانکہ آخرت کی کمائی کے لئے یہی عمر سب سے زیادہ بہتر ہے قیامت کے دن پوری زندگی اور خاص کر جوانی کے متعلق سوال ہوگأ کہ کہاں اور کس کام اور کس محنت میں خرچ کی، عبادت کے حصہ میں کس قدر (آئی) گناہ زیادہ کئے یا نیک کام زیادہ انجام دیے؟
مال بھی دنیا میں کمایا اور خرچ کیا جاتا ہے اس سے جائز ضرورتیں بھی پوری ہوتی ہیں اور گناہوں میں بھی لگتا ہے اس کے حاصل کرنے کے اسباب وذرائع حرام بھی ہیں اورحلال بھی قیامت کے دن مال کے متعلق دوہرا سوا ل ہوگا، ایک یہ سوا ل کہ کہاں سے حاصل کیا حرام سے یا حلال سے؟ اور دوسرا یہ کہ مال کہاں خرچ کیا، نیکی میں یا گناہ میں ؟
علم کے متعلق بھی سوال ہوگا کہ جو دینی معلومات حاصل ہوئی اور جاننے پر جو عمل کی ذمہ داری عائد ہوئی اس کو کس قدر انجام دیا؟ یہ پانچ سوا ل ایسے ہیں جن کے متعلق ضرور ہی سوال ہوگا۔
حضرت ابوالدرداء نے فرمایا کہ مجھے اپنے متعلق سب سے زیادہ یہی خوف لگاہے کہ قیامت کے روز ساری مخلوق کے سامنے مجھ سے کہیں یہ سوال نہ کرلیا جائے کہ اے عویمر (یہ حضرت ابوالدرداء کا نام ہے ابوالدرداء کنیت ہے) تو دین سے واقف تھا یا جاہل؟ اگر اس کے جواب میں یہ کہہ دوں گا کہ واقف تھا تو قرآن مجید کی ہر ایک آیت مجھے پکڑ لے گی جن آیتوں میں اللہ کے حکم ہیں وہ سوال کریں گی کہ بتا تونے کب عمل کیا ، اور جن آیتوں میں گناہوں سے روکا گیا ہے وہ پوچھیں گی کہ بتا تو گناہ سے کب بچا، اس کے بعد یوں دعا کی:
اعوذ باللہ من علم لا ینفع ونفس لا تشبع ودعاء لا یسمع (حلیۃ الاولیاء)
’’میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے نفس سے جس کا (دنیا سے) پیٹ نہ بھرے، اور ایسی دعا