ہے:
اذا ابتلیت عبدی بحبیبتہ ثم صبر عوضتہ منہما الجنۃ یرید عینیہ (مشکوٰۃ)
’’جب میں اپنے بندہ کی آزمائش اس کی آنکھیں لے کر کروں پھر وہ صبر کرے تو ان آنکھوں کے عوض اس کو جنت دوں گا۔‘‘
تیسری چیز جو اس حدیث شریف میں مذکور ہے یہ ہے کہ علم میں بڑھنا عبادت میں بڑھنے سے افضل ہے اس کی توضیح وتشریح پہلے گذر چکی ہے اور آئندہ حدیث کے ذیل میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ لکھی جائے گی ، چوتھی اور آخری چیز جس کا اس حدیث مبارک میں ذکر ہے یہ ہے کہ اصل دینداری پرہیزگاری ہے مطلب یہ ہے کہ اسلامی احکام کی رو سے بہت کام کرنے کے ہیں اور بہت سے چھوڑنے کے ہیں دینداری یہ نہیں ہے کہ نماز پڑھے روزہ رکھے اور ذکر وتسبیح میں مشغول رہے اور جو چھوڑنے کے کام ہیں ان کو نہ چھوڑے گو نیکی کرنا بھی دینداری کا جزو ہے مگر سب سے بڑی اور اصل دینداری یہ ہے کہ گناہوں سے پرہیز کرے گناہ چھوڑنا بہت بڑی نیکی ہے اور بہت بڑی عبادت ہے ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ کو نصیحت فرمائی کہ اتق المحارم تکن اعبد الناس (مشکوٰۃ شریف) ’’تو حرام کاموں کو چھوڑ دے عابدوں سے بڑھ کر عابد ہوجائے گا۔‘‘
حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو شخصوں کا ذکر کیا گیا ایک کے بارے میں عرض کیا گیا کہ وہ عبادت بہت کرتا ہے اور خوب محنت سے اس میں لگا رہتا ہے اور دوسرے شخص کے بارے میں عرض کیا گیا کہ وہ عبادت میں تو مشغول نہیں رہتا ہاں گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرتا ہے یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پرہیزگاری کے برابر (عبادت) کو مت سمجھ (ترمذی شریف)
اس زمانے میں اول تو لوگوں کو دینداری کی طرف توجہ ہی نہیں ہے اور اگر کسی کو دین سے کچھ تعلق ہے بھی تو نماز روزہ اور ذکر وتسبیح تک ہے نماز بھی پڑھ رہے ہیں جھوٹ بھی چل رہا ہے پیر کے مرید ہیں ذکر کی ضربیں یا مراقبہ جاری اور لوگوں کو دکھ بھی دے رہے ہیں غیبتوں میں مبتلا ہیں، حرام کمارہے ہیں اگر کمائی حلال کی ہے تو خرچ حرام ہورہا ہے کاروبار میں تصویریں مورتیاں فروخت کررہے ہیں سودی کاروبار ہے ڈاڑھی منڈی یا کٹائی ہوئی ہو (الیٰ غیر ذلک) غرض کہ گناہ چھوڑنے کو تیار نہیں اور صرف نماز وتسبیح پر دینداری کا خیال خام جمائے ہوئے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ گناہ چھوڑ نا نیکی کرنے سے مشکل ہے نیکی پر نفس کو آمادہ کرنا آسان ہے اور گناہ چھوڑنے سے نفس پر چھری چلتی ہے اسی لئے گناہ چھوڑنے کا مرتبہ نیکی کرنے سے زیادہ ہے۔