Deobandi Books

فضائل علم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

23 - 54
علم دین کے وارث وعالم کو کمتر سمجھتے ہیں اور بری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور میراث نبوی کو چھوڑ کر یونیورسٹییوں اور کالجوں کی ڈگریوں کا وارث ہونے کو بہتر اور اچھا جانتے ہیں یعنی جو چیزیں اسلام کے دشمنوں کے نزدیک افضل وکمال سمجھی جاتی ہیں انہی کا وارث خود بننا چاہتے ہیں اور اپنی اولاد کو اسی کے حاصل کرنے میں لگاتے ہیں ان کے نزدیک میراث نبوت (العیاذ باللہ) گھٹیاانسانوں کے حاصل کرنے کی چیز ہے بڑے بڑے حاجی، نمازی، صوفی، سید، صدیقی، فاروقی، چشتی، قادری، اور دینداری کے دعوے دار اسی کشتی میں سوار ہیں چونکہ دینوی معلومات سے روپیہ پیسہ مل سکتا ہے اس لئے حضور اقدس ﷺنے صاف فرمایا ان الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درہما وانماورثو العلم (بلاشبہ نبیوں نے کسی کو دینار ودرہم کا وارث نہیں بنایا، انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا) ہر مومن کو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور آخرت بنانے والے علم واعمال سے تعلق رکھنا لازم وضروری ہے علوم نبوت کے سامنے مال ودولت اور ہر علم وہنر ہیچ ہے، اگر اہل دنیا علوم نبوت کا وزن نہ سمجھیں تو کم از کم علمائے کرام کو تو اپنی علم پر بہت خوش رہنا چاہیئے، اپنے سے زیادہ کسی کو بھی صاحب نصیب اور غنی نہ سمجھیں دنیا اور اہل دنیاکے سامنے ہرگز نہ جھکیں اور یہ یقین کریں کہ جو کچھ ہم کو ملا ہے نہ کسی صاحب حکومت کے پاس ہے نہ دولت مند کی تجوری میں ہے نہ کوٹھی میں ہے، نہ بنگلہ میں ہے علم نبوت سب سے بڑا ہے فمن اخذہ اخذ بحظ وافر۔
سعید بن سلیم سے مرسلاُ روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایاجس کے نصیب میں قرآن آیا پھر اس نے اپنے سے زیادہ کسی کو نصیبہ در جانا تو اس نے انعام کی تحقیر کی جو اللہ تعالیٰ نے اسے دیا ہے۔
تنبیہ:۔ اس حدیث شریف میں قصہ نقل فرمایا گیا ہے کہ ایک صاحب مدینہ منورہ سے سفر کر کے ایک حدیث کا پتہ لگانے کے کے لئے دمشق پہنچے مدینہ منورہ سے دمشق سیکڑوں میل ہے اس زمانے میں دین سے اور علم دین  سے ایسی ہی محبت تھی جس کا آج ہزارواں حصہ بھی مسلمانوں میں نہیں پایا جاتا ہے اس حدیث پاک سے تو ایک ہی قصہ ایسا معلوم ہوا دوسری حدیثوں اور اسماء الرجال کی کتابوں میں طلب علم کے شوق اور شغف کے ان گنت واقعات ملتے ہیں کثر اللہ فینا امثالہم آمین۔




مال و دولت وغیرہ ایسی چیزیں ہیں کہ خرچ کرنے سے کم ہوجاتی ہیں اور میراث علم کا وہ بلند مقام ہے کہ یہ جس قدر بھی عام 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 تصحیح نیت اور اس کی اہمیت 1 1
3 مہاجر ام قیس 1 1
4 طالب علم کیا نیت کرے 2 1
5 دنیا حاصل کرنے کیلئے علم دین حاصل کرنا 3 1
6 علمیت جتانے یا معتقد بنانے کے لیے علم حاصل کرنا 4 1
7 علم دین کی ضرورت اور فرضیت 6 1
8 اصل علم تین چیزوں کا علم ہے 10 1
9 دینی سمجھ انعام عظیم ہے 14 1
10 علمائے دین قابل رشک ہیں 15 1
11 معلم ومبلغ کے لئے دعائیں اور عابد پر عالم کی فضیلت 16 1
12 علماء اور طلباء کا مرتبہ 18 1
13 علماء کا وجود علم کا وجود ہے 20 1
14 طالب علموں کے ساتھ حسن سلوک 20 1
15 علماء ورثۃ الانبیاء ہیں 21 1
16 علم دین صدقہ جاریہ ہے 24 1
17 سب سے بڑا سخی 26 1
18 علماء اور حفاظ شفاعت کرینگے 27 1
19 مسجدوں میں ذکر وعلم کے حلقے 29 1
20 عورتوں کی تعلیم وتبلیغ کے لئے وقت نکالنا 30 1
21 مومن کو علم دین کا حریص ہونا چاہیے 32 1
22 طلب علم کے لئے سفر کرنا 34 1
23 ایک فقیہ شیطان کیلئے ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے 38 1
24 کوئی طالب علم دین خسارہ میں نہیں 40 1
25 علم پر عمل کرنا 41 1
26 قرآن شریف سیکھنا سکھانا 45 1
27 قرآن پڑھ کر بھول جانا 46 1
28 قرآن مجید کو شکم پروری کا ذریعہ بنانا 47 1
29 اپنی رائے سے تفسیر بیان کرنا 50 1
Flag Counter