حدیث کے آخری مضمون کی تشریح کرتے ہیں۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ان العلماء ورثۃ الانبیاء (بے شک علماء نبیوں کے وارث ہیں) حضرات انبیاء کرام ؑ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے ہادی اور داعی بن کر آتے تھے انکی دعوت وہدایت کا خلاصہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کو پہچانو اس کے احکام پر عمل کرکے مرنے کے بعد کی زندگی اچھی بنالو، دنیا کی عبور ی اور امتحانی زندگی کی معصیتوں سے ملوث کر کے خدائے پاک سے دور نہ ہوجاؤ حضرات انبیاء کرام ؑ کے ساتھ ان کے خاص خاص حواری اور فیض یافتہ اصحاب رہے وہ علوم نبوت خاص کر کے دوسرے کو سکھاتے رہے، حضور اقدسﷺ سید الانبیاء والمرسلین ہیں آپ کے علوم سب سے زیادہ ہیں شریعت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ) چونکہ تمام زمانوں اور تمام مکانوں (یعنی روئے زمین کے رہنے والے سارے انسانوں) کے لئے ہے اس لئے اس کے احکام بہت زیادہ مفصل ہیں جو قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں پھیلے ہوئے ہیں حضرات صحابہؓ علوم نبوت کے وارث ہوئے پھر شاگردوں نے ان سے علوم حاصل کر کے آگے پہنچائے اور پھیلائے اور مسلسل اسی طرح یکے بعد دیگرے علمی میراث جاری ہے جو قرب قیامت تک رہے گی حضرات صحابہؓ علوم نبوت کے بلاواسطہ وارث ہوئے اور ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین اور بعد کے علماء بالواسطہ وارث بنے۔
حضرات علمائے کرام جب علوم نبوت کے وارث ہوئے تو ان علوم کے لوازم بھی میراث میں مل گئے جس طرح حضرت رسول کریم ﷺافضل البشر ہیں اسی طرح آپ کے وارثین بھی دوسرے انسانوں سے افضل ہیں حتی کہ عابدوں پر بھی ان کو فضیلت ہے پھر جس طرح حضرات انبیاء کرام ؑ کو برا کہا جاتا رہاایذائیں دی جاتی رہیں اسی طرح ان کے وارثوں کو بھی لوگوں کی طرف سے قسم قسم کی تکالیف پہنچی ہیں اور طعنے سننے پڑتے ہیں حضرات انبیاء کرام ؑ اولو العزم اور صاحب صبر ہونے کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کے لئے بہت زیادہ شفیق اور ان کی ہدایت کے لئے انتہائی درد مند اور فکرمند ہوتے تھے اسی طرح علمائے کرام بھی صبروعزم، شفقت ومحبت اور دردوفکر کے ساتھ دعوت وتبلیغ، اصلاح وتعلیم میں منہمک رہتے ہیں۔
یہ علمائے حق کا ذکر ہے، علماء سوء کی طرف دھیان نہ لے جایئے اور حدیث کے اسی جملہ (ان العلماء ورثۃ الانبیاء) پر علمائے حق اور علماء سوء کو پرکھ سکتے ہیں جو لوگ میراث علم کے وارث ہیں اگر وہ اصحاب نبوت کی دوسری صفات کے بھی حامل ہیں تو یقین جانو کہ علمائے حق اپنے نبی کے صحیح وارث اور خلیفہ ہیں۔
چونکہ عام لوگوں کے دلوں میں عمومًا مال ودولت او ردینوی جاہ وحکومت کی محبت پوری طرح گھر کئے ہوئے ہے جس کی وجہ سے آنحضرت ﷺسے تعلق بالکل ہی نہیں ہے یا بہت ہی کم ہے، اس لئے صاحب دولت اور صاحب حکومت سے