مقام اخلاص و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کہنے لگا کہ ظہر کی امامت کراؤں گا،کیوں کہ مغرب پڑھانے میں تو اس کی جہالت ظاہر ہوجاتی، لہٰذا اس نے ظہر پڑھائی،لیکن نماز کے درمیان اس نے زور سے آواز لگائی دھت دھت دھت۔ نماز کے بعد سب نے کہا کہ یہ نماز میں آپ دھت دھت کیا کررہے تھے؟ کہا کہ تمہیں کیا پتا ہے کہ کعبہ شریف میں ایک کتا گھس رہا تھا میں اس کو بھگارہاتھا، جن کو خدا آنکھ دیتا ہے ان کو کعبہ تک نظرآتا ہے ۔ وہ عالم بھی موجود تھے، اُ ن کو اُسے گرانے کا ایک پوائنٹ مل گیا تاکہ اللہ کے بندے اُ س کے چکر سے نکل جائیں، لہٰذا سب کی دعوت کردی کہ بھائیو تمہاری بھی اور تمہارے پیر کی بھی سب کی دعوت ہے۔ بکرا ذبح کیا، بریانی پکوائی اُمت کی ہدایت کے لیے اللہ والے خرچ بھی کیا کرتے ہیں۔ پلیٹ میں چاول اُوپر رکھے اور بوٹیاں ایک بالشت نیچے رکھ دیں اور یہ پلیٹ پیر صاحب کے سامنے رکھ دی۔ اب پیر صاحب نے چاولوں کو ٹٹولا، بوٹیاں چوں کہ ایک بالشت نیچے تھیں، لہٰذا جب بوٹیاں نہیں ملیں تو پیر صاحب لگے شور مچانے کہ یہاں پیروں کی قدر نہیں ،ہمیں بلا کر ہماری توہین کی، کیا بغیر گوشت کے چاول پیروں کی غذا ہوتی ہے؟ اب وہ عالم کھڑے ہوگئے اور کہا کہ اے بھائیو! اس پیر کو تو ایک بالشت کے نیچے رکھی ہوئی بوٹیاں نظر نہیں آئیں، لڑرہا ہےکہ بوٹیاں کیوں نہیں دیں؟ میں نے جان بوجھ کر بوٹیوں کو چھپا دیا تھا، تاکہ معلوم ہو کہ اس کی نظر کہاں تک جاتی ہے۔ جو نظر ایک بالشت تک تو گئی نہیں اوروہ کعبہ تک چلی گئی کہ وہاں کے کتے کو بھگا رہا تھا۔ بس عوام نے ڈنڈا لے کر جعلی پیر کو دوڑایا اور وہ دُم دبا کر بھاگ گیا۔ دعوت کی بوٹیوں نے اس کی فقیری کا پول کھول دیا۔اس پر مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آگیا کہ جب میں آزاد کشمیر گیا تو ایک دوست سے پوچھا کہ کیا کام کرتے ہو؟ اُس نے کہا کہ مرغوں کی دوکان کرتا ہوں یعنی مرغیاں بیچتا ہوں۔ تو میں نے کہا کہ اپنے مرغوں کو میرے آنے کی خبر مت کرنا۔ اس نے کہا کیوں؟ اسی وقت میرا ایک شعر ہوگیا ؎سارے مرغے یہ خبر سن کے سہم جاتے ہیں جب وہ سنتے ہیں کہ بستی میں کوئی پیر آیا کیوں کہ مرغے سمجھ جاتے ہیں کہ اب ہماری خیر نہیں ہے، ہر آدمی پیر صاحب کے لیے مرغی ذبح کرے گا اور ہماری جان مصیبت میں آجائے گی۔ ہم لوگ چوں کہ اپنا کھانا اپنے پیسے سے پکاکر