ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
نظام ِ حکومت کی کامیابی یہ ہے کہ ملک خوشحال، ترقی پذیر اور سماج و معاسرہ پُر اَمن و مطمئن ہو اگر جمہوریت اِس مقصد کو پو را نہیں کرتی تو کوئی وجہ نہیںہے کہ صرف الفاظ کی مالا جپی جائے اور خلق ِ خدا کومصیبت میں ڈالا جائے۔ اگر ایک حکمران مسلمہ دستور اور مجلس شوریٰ کے فیصلوں کا اِتناپا بند ہے جیسا کسی جمہوریت کا وزیر اعظم پار لمینٹ کے فیصلوں کاپابند ہوتاہے تو اُس کی با دشاہت اِسی حد تک قابلِ مذمت رہ جاتی ہے کہ اُس نے ملک کو وراثت قرار دے رکھا ہے اُس کی ملوکیت کو فر عونیت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ اِسلام اِس درجہ کی ملوکیت کوبھی پسند نہیں کرتا آنحضرت ۖ نے اِس کو بھی'' ملک ِعضوض'' (کاٹ کھانے والی حکومت) فرمایا ہے لیکن اگر قوم حسن ِ اِنتخاب کی صلاحیت سے محروم ہے تو اِسلام ایسے با دشاہ کے خلاف بغاوت کا حکم بھی نہیں دیتا۔ اِس تا ریخی حقیقت کا اِنکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اِسلام جس طرح ملوکیت کی ہر ایک قسم سے بیزار ہے، مسلمانوں کے عمل نے با دشاہت سے بیزاری کا ثبوت نہیں دیا مگراِس کا سبب اَر باب حل وعقد اور رہنما یانِ ملت کی بزدلی، بے حسی یاموقع پرستی نہیں بلکہ اِس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اِبتداء کے چند خلفاء کے بعد ایسا دور کبھی نہیںآیا کہ قرآنی اُصول یعنی بہتر اَخلاق و کر دار (تقویٰ) کے معیار پر اِنتخاب کیا جاتا ۔ دُوسری طرف مسلمان با دشاہوں کی غالب اکثریت وہ رہی ہے جو مطلق العنانی کے با جود قانون کی پابند رہی، فو جی اُمور میں بیشک وہ آزاد رہا کرتے تھے مگر عدالت میں با دشاہ اور عام با شندہ ٔ ملک کی حیثیت یکساں ہو تی تھی۔ جماعت اور پار ٹی کے مینو فسٹو ١ کی بنیاد پر اِنتخاب بیشک یورپ کی اِیجاد ہے مگرایک دو ملک کو چھوڑ کر پوری دُنیا کے تمام ممالک کا تجربہ یہ ہے کہ مینوفسٹو کا خوابِ شیریں (سندر سپنا) شاذو نا در ہی شرمندۂ تعبیر ہوتا ہے، اِنتہا یہ ہے کہ'' الیکشنی وعدہ'' اور ''دھوکہ دہی'' کو ہم معنٰی سمجھا جاتا ہے ،یہ بات فراموش نہ ہونی چاہیے کہ ایک پار لیمنٹ یاکیبنٹ فر عون نے بھی بنا رکھی تھی قرآنِ حکیم نے اِس کولفظ ١ Menifesto(منشور)