ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
نوعِ اِنسان کے اُچھلنے کود نے والے جذبات ِ وطنیت اور قومیت کی زنجیروں میں جکڑ بند ہو جاتے ہیں اور اِس طرح خدا پرستی کے نام پر نہ سہی قوم پرستی کے نام پر ہرقوم کا شِوالا ١ الگ بن جاتا ہے اور جس مقابلہ اور جنگ و جدال کے لیے مذہب بدنام ہے وہ قومیت اور نیشل اِزم کے نام پر شروع ہو جاتا ہے اور وہ خون خرابہ ہوتا ہے جس سے ماضی اور خصوصًا ترقی کے دعویدار ''حال'' کی تاریخ کاہر ایک ورق رنگین بلکہ ملوث اور متعفن ہے (معاذ اللہ)۔ اِسلام قومیت کے نام پر کسی بر تری کوگوارا نہیں کرتا، اِنتہاء یہ کہ وہ ایسے لوگوں کوآخرت کی فلاح اور کامیابی سے محروم قرار دیتاہے جن کی جدو جہد کا نصب العین اپنی قوم کو برتربنانے تک محدود رہے، قرآن کااعلان ہے۔ ( تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ط وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ ) (سُورة القصص : ٨٣) ''(یہ پچھلا گھر، عالمِ آخرت) ہم اُن کے لیے خاص کرتے ہیں جو دُنیا میں بڑا بننا چاہتے ہیں اور نہ فساد کرنا ۔'' قرآنِ حکیم کی ہدایت ہے : ''کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ بنائے بہت ممکن ہے جس کا مذاق بنا رہے ہووہ تم سے بہتر ہو۔'' (سورۂ حجرات : ١١) نیز اِر شاد ہے : ''یہ ہر گزنہ ہونا چاہیے کہ کسی قوم کا بغض تمہیں اِس بات پر آمادہ کر دے کہ تم عدل واِنصاف کے راستہ سے ہٹ جاؤ۔ (ہر حال میں عدل کرو) اِنصاف سے کام لو ۔'' ٢ پس اِسلام اِس کی بھی اِجازت نہیں دیتا کہ آپ کی جدو جہد آپ کا خرچ لِوَجْہِ الْقَومْ ہو ۔ آفاقیت کے دائرہ کوسب سے زیادہ وسیع مانا جاتاہے مگر اِسلام اِس وسیع دائرہ میں بھی وسعت پیدا کرتا ہے ١ مندر،عبادت گاہ ٢ سورۂ مائدہ : ٨