ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
آپس میں کہتے تھے چپکے چپکے کہ اَندر نہ آنے پائے اِس میں آج تمہارے پاس کوئی محتاج اور سویرے چلے لپکتے ہوئے زور کے ساتھ۔ پھر جب اُس کو دیکھا بولے ہم تو راہ بھول آئے۔ نہیں ! ہماری قسمت تو پھوٹ گئی ! بولا اُن میں سے درمیانہ کہ میں نے تم کو نہ کہا تھا کہ کیوں نہیں پاکی بولتے اللہ کی۔ بولے پاک ذات ہے ہمارے رب کی ہم ہی قصور وار تھے پھر منہ کر کر ایک دُوسرے کی طرف لگے طعنہ دینے ، بولے ہائی خرابی ہماری ! ہم ہی تھے حد سے بڑھنے والے۔ شاید ہمارا رب بدلہ دے ہم کو اِس سے بہتر، ہم اپنے رب سے آرزو رکھتے ہیں۔ یوں آتی ہے آفت اور آخرت کی آفت تو سب سے بڑی ہے، اگر اُن کو سمجھ ہوتی۔ '' زمانہ قدیم میں یمن کے قریبی علاقوں میں ایک نیک اور دولت مند شخص رہتا تھا اُس کا باغ تھا جس میں میوہ جات اور پھلوں کے درخت بکثرت تھے وہ شخص باغ کی آمدنی سے بقدرِ کفایت حصہ لیتا اور باقی فقراء و مساکین میں تقسیم کر دیتا تھا، ہر سال کٹائی کے وقت وہ یہ کام سر اَنجام دیتا۔ یہ شخص اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کرتا تھا اور اُنہیں اِیمان کی باتیں بتاتا اور اِنفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دیتا تھا اور فقراء و مساکین پر رحم کرنے کی تلقین کرتا تھا اور اُنہیں اللہ کی نعمتوں میں شریک کرنے کی رغبت دلاتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ نیک آدمی شدید بیمار ہو گیا حتی کہ اُسے موت قریب نظر آنے لگی، اُس نے اپنے بیٹوں کو جمع کیا اور کہنے لگا : میرے بیٹو ! اِس دُنیا کی سب سے بہتر چیز اَعمالِ صالحہ اور اللہ کا قرب ہے، یہ بات خوب سمجھ لو کہ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے لہٰذا اپنے مال میں سے فقراء و مساکین کا حصہ نہ بھولنا تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال میں برکت پیدا کرتا رہے پھر اُس آدمی کااِنتقال ہو گیا تو اُس کے بیٹے ایک جگہ جمع ہوئے اور آئندہ کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ سب سے بڑے بیٹے نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا باپ بے وقوف شخص تھا وہ معاملات صحیح اَنجام نہیں دیتا تھا اپنامال فقراء ومساکین کو دیتا تھا ہم فقراء کو اپنا مال نہیں دے سکتے، کیا اللہ جیسے ہمیں رزق دیتا ہے اُن کو نہیں دے سکتا !