ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
فرمایا : رَحْمَةَ رَبِّیْ میں اپنے پروردگار کی رحمت کا خواستگار ہوں۔ پوچھا : أَلَا اٰمُرُ لَکَ بِطَبِیْبٍ آپ کے لیے کسی طبیب کا اِنتظام نہ کردُوں ؟ فرمایا : اَلطَّبِیْبُ اَمْرَضَنِیْ میرے لیے طبیب کا کیااِنتظام کریں گے ،اَصل ''طبیب'' ہی نے مجھے بیمار کیا ہے۔ پوچھا : أَلَا اٰمُرُ لَکَ بِعَطَائٍ آپ کے لیے کچھ رقم کا بندوبست کردُوں ؟ فرمایا : لاَحَاجَةَ لِیْ فِیْہِ یعنی مجھے ضرورت نہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کو ضرورت نہ سہی آپ کے بعد آپ کی بچیوں کے کام آئے گی۔ حضرت اِبن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا آپ کو میری بیٹیوں کے بارے میں فقر کا اَندیشہ ہے ؟ ایسی بات نہیں ہوگی کیونکہ میں نے اُنہیں روزانہ رات کو سورۂ واقعہ پڑھنے کی تلقین کی ہوئی ہے اور میں نے رسول اللہ ۖ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا مَنْ قَرَأَ سُوْرَةَ الْوَاقِعَةِ کُلَّ لَیْلَةٍ لَمْ تُصِبْہُ فَاقَة اَبَدًا یعنی جس نے ہر رات سورہ ٔواقعہ پڑھی اُس کو کبھی فاقہ نہیں پہنچے گا۔ حضرت عمر کے نزدیک حضرت اِبن مسعود کا مقام : حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا جس کا قد بیٹھے ہوئے آدمی کے برابر تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کچھ دیر اُن سے گفتگو کرتے رہے پھر وہ چلے گئے تو عمر نے فرمایا یہ اِبن مسعود ہیں، یہ ظرف ہیں علم سے بھرا ہوا ،یہ ظرف ہیں علم سے بھرا ہوا۔ حضرت عمر نے جن چار آدمیوں کو مدینہ سے باہر جانے سے منع کر رکھاتھا اور اُن کو بطورِ مفتی اور مشیر اپنے پاس رکھا ہوا تھا اُن میں جو دو اہم شخص تھے وہ حضرت علی اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما تھے چونکہ خلافت کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نت نئے مسائل آجاتے ہیں میں اکیلا یہ سب کام نہیں کر سکتا ہے اِس لیے آپ حضرات میرے پاس رہیں اور اِن جدید مسائل کو حل کرنے میں میری مدد کریں۔