ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
یَاعَائِشَةُ لَولَا اَنَّ قَوْمَکِ حَدِیْثُ عَھْدٍ بِشِرْکٍ لَھَدَمْتُ الْکَعْبَةَ فَاَلْزَقْتُھَا بِالْاَرْضِ وَجَعَلْتُ لَھَا بَابَیْنِ بَابًا شَرْقِیًّا وَبَابًا غَرْبِیًّا وَزِدْتُّ فِیْھَا سِتَّةَ اَذْرُعٍ مِنَ الْحَجَرِ فَاِنَّ قُرَیْشًا اِقْتَصَرَتْھَا حَیْثُ بَنَتِ الْکَعْبَةَ۔(مسلم شریف رقم الحدیث ١٣٣٣ ) اِس حدیث کے منشا اورمقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے میں اُن حضرات سے درد مندانہ اَپیل کرتا ہوں جو برصغیر کے مصاحف کا رسم الخط بدلناچاہتے ہیںیابدلنے کافیصلہ کرچکے ہیں کہ اگر وہ رسم اِس لیے بدلنا چاہتے ہیںکہ مروجہ رسم الخط غلط اور علمائِ رسم کے بیان کردہ قواعد کے مخالف ہے تویہ سراسر نااِنصافی اورزیادتی ہے بلکہ ایک مسلمہ حقیقت کا اِنکار ہے جسے ہزار سال پہلے اِمام دانی رحمة اللہ علیہ (وفات:٤٤٤ھ) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب (المقنع) میں روایت کیا ہے اور اَکابرین ِ علماء و قراء کی مخلصانہ کوششوں اور کاوِشوں کی ناقدری کے بھی مترادف ہے۔ اوراگروہ اِس لیے بدلنا چاہتے ہیں کہ اِمام اَبوداود کا مذہب اُن کی نظرمیں اِمام دانی کے مذہب سے اَفضل واَحسن ہے تو بھی اُنہیں یہ اِرادہ مذکورہ حدیث شریف کی روشنی میں ترک کردینا چاہیے جس میں حضور اَکرم ۖ نے خانۂ کعبہ کوشہید کرکے اَز سر نو قواعدِ اِبراہیمی پراُستوار کرنے کا اِرادہ محض اِس لیے ترک فرمادیا تھا کہ اِس اَفضل کام کرنے سے ایک متوقع فتنے کا اَندیشہ ہے، وہ یہ کہ نومسلم قریش ِمکہ خانہ کعبہ کوشہید ہوتے دیکھ کر کہیں اِسلام ہی سے متنفر نہ ہوجائیں۔ اِسی مصلحت کے پیش ِ نظر برصغیر میں قرآنِ پاک کے رسم الخط کومتازع نہ بنا یاجائے، مباداکہ قرآن ہی عوام الناس میں متنازعہ بن جائے اور برصغیر (ہندوپاک) کے وزارت ِ مذہبی اُمور کے ذمہ داران سے بھی میری یہی اِلتجا ہے کہ ہمارے ہاں مصاحف کارسم الخط جو صدیوں سے چلا آرہا ہے اُسے تبدیل کرنے کے کسی بھی فیصلے سے گریز کیا جائے کیونکہ برصغیرکے یہ مطبوعہ قرآنِ پاک دُنیا کے کونے کونے تک پھیلے ہوئے ہیں اوراِن مصاحف سے اِستفادہ کرنے والے مسلمانوں کی تعداد اَربوں میں نہیں توکروڑوں میں ضرور ہے، اُن سب مسلمانوں کوموجودہ رسم تبدیل کرکے شش وپنج میں مبتلا نہ کیا جائے، ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے اوراُس پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔