ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
پس جبکہ تمہارا یہ حال نہیں ہے اور تم اپنے دِلوں سے پوچھووہاں سے بھی یہی جواب ملے گا کہ وہاں نہیںہے تو پھر یقین کرو کہ ربیع الاوّل کے موقع پر تمہاری یہ عشق ومحبت کی نمائش محض فریب ِنفس ہے جس میں تم خود مبتلا ہو سکتے ہو یا تمہارے ظاہر میں دوست واَحباب،خدا وند ِعلیم و خبیر تمہارے اِس فریب میں نہیں آسکتا اور نہ اُس کے رسول ۖ کو تم اِن خالی اَز حقیقت مظاہروں سے دھوکا دے سکتے ہو۔ اِس لیے میں تم سے کہتا ہوں اور اللہ کی قسم محض تمہاری خیر خواہی کے لیے کہتا ہوں کہ تم اپنی اِن رسمی مجلسوں کی آرائشوں سے پہلے اپنے اُجڑے ہوئے دل کی خبر لو اور قندیلوں کے روشن کرنے کے بجائے اپنے قلوب کو نورِ ایمانی سے منور کرنے کی فکر کرو۔ تم اَغیار کی تقلید میں نقلی پھولوں کے گلدستے سجاتے ہو مگر تمہاری حسنات کا جو گلشن اُجڑ رہا ہے اُس کی حفاظت اور شادابی کا کوئی اِنتظام نہیں کرتے ،تم ربیع الاوّل کی برکتوں اور رحمتوں کا تصور کرکے مسرت کے ترانے گاتے ہو لیکن اپنی اِس بربادی پر ماتم نہیں کرتے کہ تمہارا خداتم سے رُوٹھا ہوا ہے، اُس نے تمہاری بد اَعمالیوں سے ناراض ہو کر اپنی دی ہوئی نعمتیں تم سے چھین لی ہیں۔تم آقا سے غلام، حاکم سے محکوم ،غنی سے مفلس ،زَردار سے بے زر بلکہ بے گھر ہو چکے ہو، تمہارے اِیمان کا چراغ ٹمٹما رہا ہے اور تمہارے اَعمالِ صالحہ کا پھول مرجھا رہا ہے اور غضب بالائے غضب یہ ہے کہ تم غافل ہو۔ پس کیا اِس محرومی اور مغضوبی کی حالت میں بھی تم کو حق پہنچتا ہے کہ ربیع الاوّل میں آنے والے دین ودُنیا کی نعمتیں لانے والے رحمة للعا لمین ۖ کی آمد کی یاد گار میں خوشیاں منائو ، بقول علامہ اَبوالکلام آزاد : ''کیا موت اور ہلاکی کو اِس کا حق پہنچتا ہے کہ زندگی اور رُوح کا اپنے کو ساتھی بنائے ؟ کیا ایک مردہ لاش پر دُنیا کی عقلیں نہ پہنچیں گی اگر وہ زِندوں کی طرح زندگی کو یاد کرے گی ؟ ہاں یہ سچ ہے کہ آفتاب کی روشنی کے اَندر دُنیا کے لیے بڑی ہی خوشی ہے لیکن اَندھے کو کب زیب دیتا ہے کہ وہ آفتاب کے نکلنے پر آنکھوں والے کی طرح خوشیاں منائے۔'' (باقی صفحہ ٦٢ )