ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
غافل رہتے ہیں )اِس وجود ِمقدس کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور طرح طرح سے خوشیوں اور مسرتوں کا اِظہار کیا جاتا ہے،نعمائے اِلٰہی کی یاد سے خوش ہونا بُری چیز نہیں بلکہ حدودِ شرعیہ سے تجاوز نہ ہو تو ایک درجہ میں محمود ہے لیکن آج مجھے عرض کرنا یہ ہے کہ آپ جشن کی اِن گھڑیوں اور شادمانی کی اِن ساعتوں میں اِس قابلِ ماتم حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ اِس مقدس ومسعود وَجود نے اِس مبارک مہینے میں نزولِ اَجلال فرماکر آپ کو جو کچھ دیا تھا آج آپ اپنی شامت ِاَعمال سے سب کچھ کھو چکے ہیں،ربیع الاوّل اگر آپ کے لیے خوشیوں کا موسم اور مسرتوں کا پیغام ہے تو صرف اِس لیے کہ اِس مہینے میں دُنیا کی خزانِ ضلالت کو بہارِ ہدایت نے آخری شکست دی تھی اور اِسی مہینہ میں وہ ہادیٔ اعظم ۖ رونق اَفروز عالَم ہوئے تھے جنھوں نے تم پر رُوحانیت کے دروازے کھول دیے اور ساری نعمتیں تم کو دِلوادیں جن سے تم محروم تھے پھر اگر آج تم اُن کی لائی ہوئی شریعت سے دُور اور اُن کی دلائی ہوئی نعمتوں سے محروم ومجہور ہوتے جارہے ہو تو کیا وجہ ہے کہ گزشتہ بہار کی خوشی تو مناتے ہو لیکن خزاں کی موجودہ پامالیوں پر نہیں روتے۔ تم ربیع الاوّل میں آنے والے کے عشق ومحبت کا دعوٰی رکھتے ہو اور اُس کی یاد کے لیے مجلسیں منعقد کرتے ہو لیکن یہ نہیں سوچتے کہ تمہاری زبان جس کی یاد کا دعوٰی کر رہی ہے اُس کی فراموشی کے لیے تمہارا ہر عمل گواہ ہے اورجس کی تعظیم وتکریم کا تم کو بڑا اِدعاء ہے ، تمہاری گمراہانہ زندگی بلکہ تمہارے وجود سے اُس کی عزت کو بٹّہ لگ رہا ہے ۔ اگرتمہارے اِس دعوائے عشق و محبت اور اِدعائے اِحترام وعظمت میں کوئی صداقت ہوتی اور تم کو دَرحقیقت اُن سے غلامی کا اَدنیٰ سا تعلق ہوتا تو تمہاری دینی حالت ہرگز اِس قدر تباہ نہ ہوتی،تم اُن کی لائی ہوئی شریعت سے ایسے بیگانہ نہ ہوتے ،تم نماز کے عادی ہوتے اور زکٰوة پر عمل ، تقوٰی تمہارا شعار ہوتا اور اِتباعِ سنت تمہارا طرۂ اِمتیاز ،تم حرام وحلال میں فرق کرتے بلکہ مواقع شُبہات سے بھی بچتے ،تمہاری زندگی نمونہ ہوتی صحابہ کرام کا اور تمہارا ہر عمل مرقع ہوتا اِسلام کا ۔