ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
اِس کی حد بندی کرنی یہ نبی کے علاوہ کسی اور کے لیے ممکن نہیں لہٰذا صحابیوں کو تو منع کردیا کہ تعریف سنو ہی مت اور رسول ۖ معصوم ہیں تو اُنہیں اپنی تعریف پر اُتنی ہی خوشی ہوگی جتنی اللہ تعالیٰ نے اِنسان کی فطرت میں رکھ دی ہے بس، اُس سے اَگلا حصہ وہاں خود بخود ہی نہیں ہوگا تویہ تکبر نہیں ہوا یہ خود پسندی نہیں ہوئی بلکہ یہ فطرت ہوئی کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہ ١ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صفات پر پیدا کیا،عَلٰی صُوْرَتِہ یعنی اپنی صفات کے اُوپر پیدا کیا ہے حیات ہے، علم ہے ،اِرادہ ہے، قدرت ہے ،سمع ہے، بصر ہے، کلام ہے، سننا،گفتگو کرسکنا ،دیکھ سکنا، اِرادہ، طاقت، حیات یہ چیزیں دیں تو اللہ تعالیٰ نے اور صفات جو ہیں وہ بھی اِنسان کو دی ہیں،اُن کا بھی عکس اِنسان کے اَندر آیا تو یہ فطرت میں اُس کے داخل ہوگئیں جیسے مٹی ہونا فطرت میں داخل ،آگ فطرت میں داخل، غصہ فطرت میں داخل ،یہ فطری چیزیں ہوگئیں اور فطری چیزیں ہوگئیں تو اِن میں اِمتیاز اور حد بندی جو ہے وہ نہیں ہو سکتی بعض چیزوں میں اور وہ ایسی ہیں کہ اللہ کو ناپسند ہیں تو اِنسان کو بالکل روک دیا جناب ِ رسول اللہ ۖ نے کہ اِن چیزوں میںبالکل نہ پڑو اورجو ایسے کر تا ہے وہ دوستی نہیں کر رہا وہ دُشمنی کر رہا ہے، جو تمہاری تعریف کرتا ہے وہ تمہارے ساتھ اچھائی نہیں کر رہا اور تم تعریف پر خوش ہو رہے ہوتو اچھا ئی نہیں کر رہے۔ لیکن ایسے ایسے اَکابر اَولیائے کرام گزرے ہیں کہ جن کے بارے میںکوئی تردّد یا دُوسرا لفظ ہے ہی نہیں، تعریف ہی تعریف کا لفظ ہے اور بلا شبہ وہ اَولیائے کبار میں ہیں لیکن اُن کی تعریف اُن کے متوسلین نے کی ہے، اَمیر خسرو رحمة اللہ علیہ نے نظام الدین اَولیاء رحمة اللہ علیہ کی تعریف کی، اور اِسی طرح سے جو'' مجذوب'' ہوتے ہیں وہ اپنی تعریف پر خوش ہوتے ہیں اور وہ مجذوب ہیں غیر مکلف ہیں مکلف ہی نہیں، اَولیائے کرام میں ہیں تو یہ کیا حصہ ہے ؟ جب وہ غیر مکلف ہو گیا مجذوب ہے مغلوب الحال ہے اُس پر خدا کی طرف سے کوئی گرفت نہیں رہی لیکن وہ بھی خوش ہوتا ہے اپنی تعریف پر،تو یہ ہے فطرت جو اللہ نے اِنسان کے اَندر رکھ دی ہے وہ اُتنا خوش ہوتا ہے جتنا مواخذہ نہ ہو اللہ کے ہاں چونکہ کبھی ١ بخاری شریف کتاب الاستئذان رقم الحدیث ٦٢٢٧