ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
عتبہ بن ربیعہ نے بڑی خوشی سے یہ تجویز منظور کرلی اور وعدہ کرلیا کہ صرف خون بہا نہیں بلکہ عمرو بن حضرمی (مقتول) کا جو مالی نقصان ہوا تھا اُس کی تلافی بھی کردُوں گا لیکن ہیرو اَبو جہل تھا زمام ِ قیادت اُسی کے ہاتھ میں تھی اُس کا متفق ہونا ضروری تھا لہٰذا عتبہ نے حکیم بن حزام ہی کے سپرد کیا کہ وہ اَبو جہل سے بات چیت کریں اُس وقت جو اِجتماع وہاں ہوگیا تھا اُس سے خطاب کرتے ہوئے عتبہ نے کہا : عزیزو ! مجھے یہ یقین نہیں ہے کہ تم محمد (ۖ) اور اُس کے ساتھیوں کو نیست ونابود کردو گے صرف یہی کر سکو گے کہ کچھ لوگوں کو مار ڈالو لیکن غور کرو وہ مرنے والے کون ہوں گے، اگر وہ تمہارے ہی بھائی بند ہوئے تو اُن کے رشتہ داروں کا سلوک تمہارے ساتھ کیا ہوگا جس کے بھائی یا بیٹے کو تم مارو گے اُس کے عزیز جو تمہارے ہی ساتھیوں میں سے ہوں گے تم سے ہمیشہ نفرت کیا کریں گے ،جب بھی تمہاری ملاقات ہوا کرے گی یہ اِحساس اُن کے ذہن میں تازہ ہوجایا کرے گا کہ یہ میرے فلاں عزیز کا قاتل ہے لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ جنگ ملتوی کردو حاضرین نے اِس سے اِتفاق کیا۔ اَب حکیم بن حزام اَبوجہل کے پاس پہنچے اَبوجہل ترکش سے تیر نکال کر درست کر رہا تھا ۔ عتبہ کا پیغام سنا تو غصہ سے آگ بگولہ ہوگیا اور بڑے طنز سے کہا : عتبہ کی ہمت ختم ہوگئی ہے اُس کے حوصلے نے جواب دے دیا ہے اُس کے پیٹ میں اِس لیے مڑوڑ ہورہا ہے کہ اُس کا بیٹا ١ مسلمان ہوچکا ہے۔ وہ محمد(ۖ) کے ساتھ ہے کہیں وہ مارا نہ جائے۔'' ( ص ٣٦٩ ) ١ سیّدنا اَبو حذیفہ رضی اللہ عنہ ۔