ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
اُنہوں نے خود بھی غور کیا کہ تجارتی قافلہ کی حفاظت کے لیے ہم روانہ ہوئے تھے وہ مقصد پورا ہوگیا، اَبوجہل نے یہاں پہنچ کر جشن کا اِرادہ کیا تھا اِس کا اِمکان نہیں رہا اَب جنگ کا بہانہ اَگر ہے تو صرف'' حضرمی'' کا خون ہے، عرب کے دستور کے مطابق یہ ہو سکتا ہے کہ خون بہا دِلوادیا جائے اور جنگ کا قصہ ختم کیا جائے۔ حکیم بن حزام نے کچھ اور ساتھیوں سے بھی مشورہ کیا سب نے اِس کی تائید کی پھر وہ'' عتبہ بن ربیعہ '' کے پاس آئے۔ عتبہ قریش کا سب سے بڑا سردار سب سے بڑا رئیس اور سب سے زیادہ عمر رسیدہ تھا اُس وقت فوج کا سپہ سالار وہی تھا۔ طبیعت ٢ کے لحاظ سے سنجیدہ اور اَمن پسند تھا ،عمرو بن حضر می کا حلیف تھا۔ عرب کے قاعدہ کے مطابق اگر کوئی حلیف اپنے پاس سے یا قاتل سے وصول کر کے (خون بہا) اَدا کردیتا تھا تو قصاص کا مطالبہ ختم ہوجاتا تھا۔ حکیم بن حزام نے عتبہ کے سامنے تجویز رکھی کہ عتبہ بحیثیت ِحلیف'' حضرمی ''کا خون بہا منظور کرلیں اور رقم اپنے پاس سے اَدا کردیں، اِس میں اُن کی نیک نامی ہوگی اور قومِ قریش مصیبت سے بچ جائے گی۔ (بقیہ حاشیہ ص ٥ ) اگر کوئی شخص اِس پر نظر رکھنے لگے تو اُس کی مثال ایسی ہوجاتی ہے کہ کھارہا ہے مگر پیٹ نہیں بھرتا۔ حضرت حکیم نے اِس اِرشاد کو پلے باندھ لیا اور ایسا اِستغناء اِختیار کیا کہ حضرت اَبوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر ِ فاروق رضی اللہ عنہ بلا کر اِن کی خدمت میں اِن کا حصہ پیش کیا کرتے تھے مگر یہ معذرت کردیا کرتے تھے ، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ حاضرین کو شاہد بنایا کرتے تھے کہ میں اِن کا حصہ پیش کر رہا ہوں مگر یہ منظور نہیں کرتے خدا کے یہاں گواہ رہنا۔ (بخاری شریف ص ٤٤٥ ) ١ اِسی موقع کی بات ہے کہ عتبہ اپنے سرخ اُونٹ پر سوار میدانِ بدر کا چکر لگا رہا تھا۔ آنحضرت ۖ کی نظر اُس پر پڑی تو آپ نے فرمایا فوجِ قریش میں کوئی بھلا آدمی ہے تو یہی سرخ اُونٹ والا ہے اگر اِس کے مشورہ پر عمل کریں تو اُنہیں سعادت میسر آجائے اِنْ یَّطِیْعُوْہُ یُرْشَدُ وْا ۔ ( اِبن اِسحاق بدایہ ص ٢٠١٨ وسیرة اِبن ہشام )