ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
اِسلامی معاشرت ( حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری،اِنڈیا ) نکاح کرتے وقت کن باتوں کا خیال رہے ؟ اَولیاء اور والدین کا فرض : نکاح کے متعلق لڑکوں، لڑکیوں کے والدین اور اُن کے اَولیاء پر بڑی اہم ذامہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن سے عہدہ برآ ہونا اُن پر ضروری ہے مثلاً اُن پر ضروری ہے کہ بلوغ کے بعد ہی سے وہ لڑکے اور لڑکی کے نکاح کی فکر شروع کردیں اور جیسے ہی کسی درجہ میں مناسب رشتہ مِل جائے نکاح میں دیر نہ کریں حدیث میں آتا ہے کہ ''جس شخص کے اَولاد ہو وہ اُس کا اچھا نام رکھے اور اُسے اَدب سکھائے پھر جب وہ بالغ ہو جائے تو اُس کا نکاح کردے اگر وہ بالغ ہونے کے بعد نکاح نہ کرے گا اور لڑکا کسی گناہ (زِنا) میں مبتلا ہوگا تو اِسکا گناہ اُس کے باپ پر (بھی) ہوگا۔'' ( مشکوة ) واقعہ یہ ہے کہ بالغ ہوجانے کے بعد بلا کسی عذر اور سبب کے کنوارے لڑکے اور لڑکیوں کو نکاح سے باز رکھے رہنا معاشرہ میں خرابیاں پیدا ہونے کا ایک بڑا سبب ہے، بعض جگہ تو یہ دیکھا گیا ہے کہ جب تک ٣٠ اور ٤٠ سال تک عمر نہ ہوجائے شادی ہی نہیں کی جاتی اور اِس سے کم عمر میں نکاح کو معیوب سمجھاجاتا ہے، یہ نہایت جہالت وحماقت کی بات ہے اور ایک طرح کا ظلم ہے جس سے بچنا چاہیے ایک حدیث میں اِرشاد نبوی ۖہے کہ ''وہ عورت محتاج ہے، محتاج ہے جس کا شوہر نہ ہو، لوگوں نے پوچھا کہ اَگر چہ اُس کے پاس مال ہو، آپ ۖنے فرمایا ہاں ! اگر چہ اُس کے پاس مال ہو۔'' (جمع الفوائد بحوالہ اِصلاحِ اِنقلاب اُمت ٢ ٢٩)