ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
ناواقفیت کا اِظہار کر دینے کے بجائے اور یہ کہہ دینے کے بجائے کہ پوچھ کر یا دیکھ کر بتاؤں گا، یا تو غلط مسئلہ بتا دیتے ہیں یا پھر سائل کو چکر میں ڈال کر پریشان کردیتے ہیں۔ اِس سلسلہ میں ایک واقعہ نظر سے گزرا قارئین بھی ملاحظہ فرمائیں ،حضرت تھانوی فرماتے ہیں : ''کسی نے ایک معقولی طالب علم سے مسئلہ پوچھا کہ گلہری کنویں میں گر پڑی ہے پاک کرنے کے لیے کتنے ڈول نکالے جاویں ، یہ بے چارے نری معقول (منطق وفلسفہ) جانتے تھے فقہ کی خبر نہ تھی۔ اَب آپ نے اپنا جہل چھپانے کے لیے اُس سے پوچھا کہ گلہری جوگری ہے دو حال سے خالی نہیں یا خود گری ہے یا کسی نے گرادی پھر اگر خود گری ہے تو دو حال سے خالی نہیں، دوڑ کر گری یا آہستہ گری، اور اگر کسی نے گرائی ہے تو دو حال سے خالی نہیں یا آدمی نے گرائی یا جانور نے اور ہر ایک کا جدا حکم ہے تواَب بتلاؤ کیا صورت ہوئی۔ سائل نے پریشان ہو کر کہا صاحب اِس کی تو خبر نہیں، کہنے لگے پھر کیا جواب دیں، وہ بے چارہ گھبرا کے چلا آیا کہ اِن کی منطق کا کیا جواب دے۔ ''( حضرت تھانوی کے پسندیدہ وقعات ص ١٨٢) بقیہ : اِسلام کیا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : ''جس کسی نے کسی ایسی چیز پر دعوی کیا جو واقعہ میں اُس کی نہیں ہے تو وہ ہم سے نہیں ہے اور اُسے چاہیے کہ دوزخ میں اپنی جگہ بنالے۔'' اور جھوٹی گواہی کے متعلق ایک حدیث میں ہے : ''حضور ۖ ایک دِن صبح کی نماز سے فارغ ہو کر کھڑے ہو گئے اور آپ نے ایک خاص اَنداز میں تین دفعہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر کردی گئی ہے۔'' (جاری ہے)